بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
نوجوانان فیصل آباد کے نام کھلا خط
اے فدایان ختم الرسلؐ! کہاں گئی آپ کی غیرت ایمانی، کہاں گیا ذوق جہاد وشوق شہادت، کہاں گیا وہ جذبۂ ابوبکرؓ، عثمان غنیؓ کا ایثار کیا ہوا۔
کہاں گئی وہ جرأت علیؓ، خالدؓ وطارقؒ وقاسمؒ کی وراثت کیا ہوئی۔ خاتم النبیینﷺ کی حرمت وناموس پر مر مٹنے کا دعویٰ کیا ہوا۔
جب مرزائیوں نے پورے پاکستان میں ’’مباہلہ‘‘ نامی پمفلٹ تقسیم کر کے مسلمانوں کو للکارا۔ مرزائیوں نے ختم نبوت کا مذاق اڑایا اور ہمارے اسلاف کی عظمت کو پامال کیا اور مسلمان اپنے گھروں میں خواب غفلت کے مزے لوٹ رہے تھے ؎
مصلحتاً کہہ دیا میں نے مسلمان تجھے
تیرے نفس میں نہیں گر مئی یوم النشور
دیکھو! کہ مسیلمہ کذاب کا پیروکار، مرزاقادیانی کذاب کا دعویٰ ہے کہ:
’’میں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور یقین کیا کہ میں وہی ہوں۔‘‘ (بحوالہ تذکرہ ص۱۹۲)
’’یہ بالکل صحیح ہے کہ ہر شخص ترقی کر سکتا ہے اور بڑے سے بڑا درجہ پاسکتا ہے۔ حتیٰ کہ محمدﷺ سے بھی بڑھ سکتا ہے۔‘‘ نعوذ باﷲ!
(الفضل ج۱۰ نمبر۵، مورخہ ۱۷؍جولائی ۱۹۲۲ئ)
اس شہر کے چند نوجوانوں نے اپنے اسلاف کی عظمت کو پامال ہوتے ہوئے دیکھا تو تڑپ اٹھے اور اپنے دست وبازو سے مرتدین کو روکا اور ان مجرموں کو قانون کے حوالے کیا۔ لیکن وہی مرزائی مرتد چند ہی روز بعد انہی سڑکوں پر دندنانے لگے اور ان جوان ہمت نوجوانوں کو دھمکیاں دینے لگے۔