کے لئے ہوئی تھی اور مرزاقادیانی کے چیلوں نے دین کے لئے لڑنے کو حرام سمجھ کر انگریز کے ہاتھ خوب مضبوط کئے اور آج بھی انہی ممالک میں ان کے اڈے ہیں۔ جہاں انگریز کا ذہن اور تہذیب وتمدن موجود ہے۔ کیونکہ فطری امر ہے کہ ہر درخت اپنے مناسب ماحول ہی میں برگ وثمر لاتا ہے۔ تو قادیانیت کا خود کاشتہ پودا بھلا اس فطری معاملہ سے کیسے الگ رہ سکتا ہے۔
صریح دھوکہ
قادیانی عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لئے یہ کہا کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ صاحب کتاب اور صاحب شریعت نبی ہیں۔ آپؐ پر جو نبوت ختم ہوئی ہے وہ تشریعی ہے اور مرزاقادیانی تو آپؐ کے امتی اور غیر تشریعی نبی ہیں۔ لہٰذا مرزاقادیانی کو امتی اور غیرتشریعی نبی تسلیم کرنے سے ختم نبوت پر کوئی زد نہیں پڑتی اور لفظ خاتم النبیین اپنے مقام پر فٹ رہتا ہے۔ مگر یہ سراسر دھوکہ ہے۔
اوّلاً… اس لئے کہ ہم نے قرآن کریم اور صریح وصحیح احادیث کے حوالے سے یہ بات عرض کی ہے کہ آنحضرتﷺ پر ہر قسم کی نبوت ورسالت ختم ہوچکی ہے۔ نہ تو آپؐ کے بعد کوئی شریعت والا نبی پیدا ہوسکتا ہے اور نہ غیر شریعت والا۔
ثانیاً… اس لئے کہ مرزاقادیانی نے تشریعی نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ: ’’اگر کہو کہ صاحب الشریعۃ افتراء کر کے ہلاک ہوتا ہے، نہ ہر ایک مفتری تو اوّل تو یہ دعویٰ بے دلیل ہے۔ خدا نے افتراء کے ساتھ شریعت کی کوئی قید نہیں لگائی۔ ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے۔ جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا۔ وہی صاحب الشریعت ہوگیا۔ پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں۔ کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی۔‘‘
(رسالہ اربعین نمبر۴ ص۶،۷، خزائن ج۱۷ ص۴۳۵)
اس حوالہ سے بالکل واضح ہوگیا کہ مرزاقادیانی کا صاحب الشریعۃ نبی ہونے کا دعویٰ ہے اور ان کی وحی میں بقول ان کے اوامر بھی ہیں اور نواہی بھی۔ ایک امر تو یہ ہے کہ جہاد حرام ہے۔ اب جو شخص دین کے لئے جہاد کرتا ہے تو بقول مرزاقادیانی وہ خدا کا دشمن اور نبی کا منکر ہے اور یہ حرمت جہاد بھی قطعی ہے۔ بھلا عین ضرورت کے وقت اس وحی سے جو ٹیچی (مرزاقادیانی کے پاس آنے والے فرشتے کا نام ٹیچی تھا۔ حقیقت الوحی ص۳۳۲، خزائن ج۲۲ ص۳۴۶) کی طرف سے آئی سفید فام آقا کیوں خوش نہ ہوتا۔