بھر جاتی ہوں تو ایسے شخص کے انگریزی سلطنت کے وفادار اور خود کاشتہ پودا ہونے کے بارے میں کیا شک وتردد ہوسکتا ہے؟
۲… ’’ہر ایک شخص جو میری بیعت کرتا ہے اور مجھ کو مسیح موعود جانتا ہے۔ اسی روز سے اس کو یہ عقیدہ رکھنا پڑتا ہے کہ اس زمانے میں جہاد قطعاً حرام ہے۔‘‘
(ضمیمہ رسالہ جہاد ص۶، خزائن ج۱۷ ص۲۸)
۳… ’’میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیںگے۔ کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۷ ص۱۷، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۹)
۴… ’’میں نے مناسب سمجھا کہ اس رسالہ کو بلاد عرب یعنی حرمین اور شام اور مصر وغیرہ میں بھی بھیج دوں۔ کیونکہ اس کتاب کے ص۱۵۲ میں جہاد کی مخالفت میں ایک مضمون لکھا گیا ہے اور میں نے بائیس برس سے اپنے ذمہ فرض کر رکھا ہے کہ ایسی کتابیں جن میں جہاد کی مخالفت ہو اسلامی ممالک میں ضرور بھیج دیا کرتا ہوں۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۱۰ ص۲۶، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۴۴۳)
۵… مرزاقادیانی نے جہاد کی مخالفت اور ممانعت پر جہاں نثر کے ذریعہ زور لگایا ہے۔ وہاں نظم وشعر میں بھی جہاد کی حرمت کو خوب خوب اجاگر کیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں ؎
چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ وقتال
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد
منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۲۶، خزائن ج۱۷ ص۷۷)
۶… ’’جہاد اب قطعاً حرام ہے۔‘‘
(ضمیمہ رسالہ جہاد ص۶، خزائن ج۱۷ ص۲۸، نہج المصلیٰ ص۱۸۰)
۷… ’’سو آج سے دین کے لئے لڑنا حرام کیاگیا۔‘‘
(تبلیغ رسالت ص۳۶، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۸۴)
ان تمام صریح اور روشن حوالوں سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کی بعثت از طرف برطانیہ محض اپنی تائید واطاعت کو نمایاں کرنے اور جہاد کو حرام قرار دینے