عبدالعزیز صاحب محدث دہلویؒ (المتوفی ۱۲۳۹ھ) کا فتویٰ پورے ہندوستان میں گونج رہا تھا کہ انگریز کے تسلط جما لینے کے بعد ہندوستان دار الحرب ہے۔
(ملاحظہ ہو فتاویٰ عزیزی ج۱ ص۱۷، ج۱ ص۱۱۰)
علماء کرام اور عامتہ المسلمین اس فتویٰ سے بڑے متأثر اور مطمئن تھے۔ برعکس اس کے انگریز اس سے بہت ہی خائف اور پریشان تھا وہ چاہتا تھا کہ اس کا اثر بالکل زائل یا کم ہو۔
اس وقت ایک طرف تو بریلوی حضرات کے اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب نے رسالہ ’’اعلام الاعلام بان ہندوستان دارالاسلام‘‘ لکھ کر انگریز کا کچھ غم ہلکا کیا اور پھر ان کے فرزند فاضل ابن الفاضل ابوالبرکات آل الرحمن محمد مصطفیٰ رضا خاں صاحب اور ان کے تقریباً تیرہ ہمنوا جید علماء اور مصدقین نے اختراعی مقدمات جوڑ جوڑ کر انگریز کے خلاف جہاد کو حرام حرام حرام قرار دیا۔ (دیکھئے طرق الہدیٰ والارشاد ص۳۱ طبع بریلی)
اور دوسری طرف بعض غیر مقلدین حضرات نے اپنے جاہ وجلال اور ریاستوں کی حفاظت اور انگریز کی کاسہ لیسی کی خاطر انگریز قوم کے خلاف جہاد حرام قرار دیا۔ چنانچہ نواب صدیق حسن خاں صاحبؒ لکھتے ہیں کہ: ’’کسی نے نہ سنا ہوگا کہ آج تک کوئی مؤحد متبع سنت حدیث وقرآن پر چلنے والا بے وفائی اور اقرار توڑنے کا مرتکب ہوا ہو۔ یا فتنہ انگیزی اور بغاوت پر آمادہ ہوا ہو۔ جتنے لوگوں نے غدر میں شر وفساد کیا اور حکام انگلشیہ سے برسر عناد ہوئے۔ سب کے سب مقلدان مذہب حنفی تھے۔‘‘ (الحمدﷲ تعالیٰ! صفدر) نہ متبعان حدیث نبوی بلفظ (ترجمان وہابیہ ص۲۵) اسی اثناء میں انگریزی حکومت کو مستحکم کرنے کے لئے انگریز کی طرف سے مرزا غلام احمد قادیانی کو جعلی نبوت عطاء ہوئی۔ تاکہ وہ جہاد کو منسوخ کر کے انگریز کے قدم مضبوط کرے اور دینی طور پر لوگوں کی ذہن سازی کرے اور یہ خالص حقیقت ہے کہ انگریز کے اس خود کاشتہ پودا نے انگریز کے لئے بہت کچھ کیا اور اس کے حق میں بہت کچھ کہا ہے اور اس خانہ ساز طریقہ سے اس نے اسلام کی مضبوط اور سیسہ پلائی ہوئی دیواروں میں دراڑیں ڈالنے کی بے حد کاوش اور سعی کی اور انگریز نے اس سے کرائی ہے۔ حضرت مولانا ظفر علی خان نے برمحل یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ؎
کاٹنا مقصود ہے جس سے شجر اسلام کا
قادیاں کے لندنی ہاتھوں میں وہ آری بھی دیکھ
مولانا موصوفؒ نے جو فرمایا ہے۔ وہ سراسر حقیقت ہے۔ مرزاقادیانی نے براہین (نامی کتاب) کی پچاس جلدیں لکھنے کا اعلان کیا اور اس کے لئے خوب چندہ فراہم کیا۔ جب پانچ