سے بڑی صراحت ووضاحت سے اس مسئلہ پر روشنی پڑتی ہے۔
۱… حضرت ابوہریرہؓ جن کا مشہور قول کے مطابق نام عبدالرحمن بن صخر تھا۔ المتوفی ۵۷ہجری فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میری اور دیگر انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی مثال ایک محل کی سی ہے۔ جو بہت ہی عمدہ طریقہ سے بنایا گیا ہو۔ لیکن اس میں ایک اینٹ کی جگہ خالی ہو۔ گھومنے والے اس کے اردگرد گھومتے ہیں اور اس کی بہترین بناوٹ پر تعجب اور حیرت کرتے ہیں۔ مگر اس میں ایک کی جگہ خالی دیکھ کر حیران ہوتے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ: ’’فانا تلک اللبنۃ وانا خاتم النبیین (بخاری ج۱ص۵۰۱ باب خاتم النبیین، مسلم ج۲ص۲۴۸ باب ذکرکونہ خاتم النبیین، مشکوٰۃ ج۲ص۵۱۱ )‘‘ {میں وہ (آخری) اینٹ ہوں اور میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں۔}
اور حضرت جابرؓ (المتوفی۷۴ہجری) کی ایک حدیث میں یوں آیا ہے کہ: ’’قال رسول اﷲﷺ فانا موضع اللبنۃ جئت فختمت الانبیآء (مسلم ج۲ص۲۴۸ باب ذکر کونہ خاتم النبیین)‘‘ {آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ (قصر نبوت کی) وہ آخری اینٹ میں ہوں اور میں نے (یعنی میری آمد نے) نبیوں کا خاتمہ کردیا ہے۔}
اور ان کی ایک روایت میں اس طرح آیا ہے کہ:’’فانا موضع اللبنۃ ختم بی الانبیآء (ابوداؤد الطیالسی ص۲۴۷)‘‘ {اس اینٹ کی جگہ میں فٹ ہوگیا ہوں اور انبیاء کی آمد مجھ پر ختم اور منقطع ہوگئی ہے۔}
ان صحیح اور صریح احادیث سے صراحتاً معلوم ہوا کہ آنحضرتﷺ کی آمد سے قصر نبوت مکمل ہوگیا ہے۔ خالی اینٹ کی جگہ پر ہوگئی ہے اور سلسلہ نبوت ورسالت ہر طرح سے بالکل بند، منقطع اور ختم ہوچکا ہے۔ خود مرزا قادیانی کو جب مسلمان تھے۔ اقرار تھا:
ہست اوخیر الرسل خیرالانام
ہر نبوت را بر وشد اختتام
(سراج منیر ص ز، خزائن ج۱۲ص۹۵)
۲… حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ مجھے تمام حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام پر چھ چیزوں کی وجہ سے فضیلت دی گئی ہے۔(۱)مجھے جوامع الکلم عطا کئے گئے ہیں۔ (۲)اور رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے۔ (۳)اور میرے لئے غنیمتوں کا مال حلال کیاگیا ہے۔ (۴)میرے لئے زمین کو مسجد اور طہارت کا ذریعہ بنایا گیا ہے