عرض حال
بسم اﷲ الرحمن الرحیم۰ مبسملاو محمد لاومصلیا ومسلماً۰امابعد!
عالم اسلام کی دنیا میں سب سے بڑی خالص اسلامی یونیورسٹی اور مرکز علوم دینیہ دارالعلوم دیوبند (بھارت) کے حضرت مہتمم صاحب دام مجدھم کے یکے بعد دیگرے تین عدد دعوت نامے راقم اثیم کے نام بذریعہ ڈاک آئے کہ دارالعلوم دیوبند کے معزز ارکان شوریٰ کے فیصلہ کے مطابق ۲۹،۳۰،۳۱؍اکتوبر ۱۹۸۶ء کو دارالعلوم کے زیر اہتمام تحفظ ختم نبوت کے موضوع پر ایک عالمی اجلاس طے ہوا ہے جس میں تمہاری شمولیت بھی ضروری ہے اور ذیل کے عنوانات میں سے کسی ایک پر ایک مقالہ تحریر کرکے ۲۰؍اکتوبر تک دارالعلوم دیوبند بھیج دیں اور مقالہ فل اسکیپ سائز کے سات صفحات پر مشتمل ہونا چاہئے۔ یا اگر مقالہ مفصل ہو تو چار پانچ صفحات میں اس کی تلخیص فرمادی جائے۔ تاکہ اس کو ۱۲؍منٹ میں پیش کیا جاسکے۔
چونکہ راقم اثیم ۳؍ستمبر۱۹۸۶ء سے ۲۵؍ستمبر تک برطانیہ کے دورے پر تھا اور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں اسباق کے خلاف معمول کافی ناغے ہوچکے تھے۔ اس لئے خود دارالعلوم دیوبند جانے کے سلسلہ میں خاصا متردد تھا۔ مگر بفضل اﷲ تعالیٰ مقالہ ان کے انتخاب کردہ عنوانات کے تحت نمبر۱۰ (ختم نبوت کتاب وسنت کی روشنی میں) پر لکھنا شروع کردیا اور معلوم ہوا کہ عزیزم زاہدالراشدی اور عزیزم محمدعبدالقدوس خان قارن سلمہما اﷲتعالیٰ اپنے چند دیگر رفقاء کے ساتھ اس اجتماع پر دارالعلوم جانے کا عزم بالجزم کرچکے ہیں اور ویزے حاصل کرنے کے لئے درخواستیں بھی دے چکے ہیں۔ بے حد مصروفیت کی وجہ سے مقالہ ۲۰؍اکتوبر تک تیار نہ ہوسکا۔ تاکہ بذریعہ ڈاک دارالعلوم دیوبند ارسال کردیا جاتا۔ دل مطمئن تھا کہ انشاء اﷲ العزیز تکمیل کے بعد یہ مقالہ دارالعلوم دیوبند بھیج دیا جائے گا۔ جو وہاں اجلاس میں پڑھ کر سنایا جائے گا۔ مگر عزیزوں کے اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق روانگی سے ایک دن پہلے معلوم ہوا کہ انڈیا نے سرحدوں کی کشیدگی کا بہانہ بناکر ان کے ویزوں کی درخواستیں مسترد کردی ہیں اور مرکزی حضرات سے جن دو چار خوش نصیبوں کو جانے کی اجازت ملی تو وہ چلے گئے اور ہمیں ان کے جانے کا علم نہ ہوسکا۔ پھر اتنا وقت نہ تھا کہ بذریعہ ڈاک وغیرہ کے یہ مقالہ وہاں اجلاس میں پہنچایا جاسکتا۔ اب مناسب معلوم ہوا کہ طلبہ علم کے افادہ کے لئے اسے شائع کردیا جائے۔ سوبحمدہ اﷲ تعالیٰ یہ شائع کیا جارہا ہے۔ متعنا اﷲ تعالیٰ بہا!