اور یہ کتاب خدا تعالیٰ کے الہام اور امر سے لکھی گئی ہے۔
(براہین احمدیہ ص۲۴۸، خزائن ج۱ ص۲۷۵، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳)
اب کون مسلمان ہے جو اﷲتعالیٰ کے امر اور الہام کو ٹھکرائے اور آنحضرتﷺ کے دربار سے رجسٹری شدہ کتاب کے حکم کو مسترد کرے۔ ’’نعوذ باﷲ من ذالک‘‘ یہ سب عبارتیں اور حوالے مرزاقادیانی کے اپنے ہیں اور بالکل واضح ہیں۔ بعد کے جنونی دور میں مرزاقادیانی اور ان کی جسمانی اور روحانی اولاد نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع الیٰ السماء حیات اور نزول الیٰ الارض اور آمد کے بارے جن جن شبہات کی بناء پر انکار کیا ہے۔ اہل اسلام کی طرف سے ان کے یہی مذکورہ جوابات کافی اور وافی ہیں جو خود مرزاقادیانی کے قلم سے صادر ہوئے ہیں۔ ’’کفٰی بنفسک الیوم علیک حسیبا‘‘ ممکن ہے مرزاقادیانی یہ کہہ دیں ؎
منزل تلک تو ساتھ رہے ہم سفر رئیس
پھر اس کے بعد یاد نہیں ہم کہاں گئے
جملہ اہل السلام اس کو بخوبی جانتے ہیں کہ ختم نبوت کے عقیدہ کی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع الیٰ السماء ان کی حیات اور پھر نزول الیٰ الارض بھی قطعی اور محکم دلائل سے ثابت ہے۔ جو کسی تاویل کا محتاج نہیں۔ لہٰذا جو طبقہ اور گروہ ایسے بنیادی عقیدہ کا انکار یا تاویل کر کے کافروں میں شامل ہونا چاہتا ہے تو بڑے شوق سے ایسا کرے۔ اسے کون روک سکتا ہے؟
کافر ہوئے جو آپ تو میرا قصور کیا
جو کچھ کیا وہ تم نے کیا بے خطا ہوں میں
اﷲتعالیٰ اہل اسلام کو توحید وسنت اور جملہ عقائد اسلامیہ کو قبول کرنے اور ان پر قائم رہنے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین!
’’وصلی اﷲ تعالیٰ وسلم علی جمیع الانبیاء والمرسلین وخصوصا علی خاتم النبیین محمد وعلیٰ آلہ واصحابہ وازواجہ واتباعہ الیٰ یوم الدین‘‘
العبد الحقیر: ابوالزاہد محمد سرفراز خطیب جامع مسجد گکھڑ
ومدرس مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ
۸؍محرم الحرام ۱۴۱۶ھ، ۲۶؍مئی ۱۹۹۶ء