کے ساتھ چریں گے مگر کوئی کسی کو ضرر نہیں دے گا اور نہ ڈرے گا۔ جیساکہ بیان ہوچکا ہے۔ وثالثاً اس لئے کہ خود مرزاغلام احمد قادیانی نے جبکہ مغوی حکیم نور الدین بھیروی ملحد کی گرفت میں پوری طرح نہیں آیا تھا۔ اپنی کتابوں میں واضح طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا تسلیم کیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔
۱… ’’الا یعلمون ان المسیح ینزل من السماء بجمیع علومہ ولا یاخذ شیئا من الارض مالہم لا یشعرون‘‘ کیا وہ لوگ نہیں جانتے کہ بے شک مسیح علیہ السلام اپنے تمام علوم کے ساتھ آسمان سے نازل ہوںگے اور زمین میں (کسی شخص سے) کوئی شے (علم) حاصل نہیں کریں گے۔ (آئینہ کمالات اسلام ص۴۰۹، خزائن ج۵ ص۴۰۹)
اس عبارت میں صریح الفاظ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے کا ذکر ہے۔
۲… ’’مثلاً صحیح مسلم کی حدیث میں جو یہ لفظ موجود ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) جب آسمان سے اتریں گے تو ان کا لباس زرد رنگ کا ہوگا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۸۱، خزائن ج۳ ص۱۴۲)
ہمارے پیش نظر مسلم شریف کا جو نسخہ ہے اس میں من السماء کا لفظ مذکور نہیں، باقی طویل روایت مسلم ج۲ ص۴۰۱ میں مذکور ہے اور مرزاقادیانی چونکہ (جعلی) نبی ہیں۔ اس لئے ان کے پاس ضرور مسلم شریف کا کوئی ایسا نسخہ ہوگا جس میں من السماء کے الفاظ بھی ہوںگے۔
۳… مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ: ’’(حجج الکرامتہ ص۴۲۸) میں ابن واطیلؒ وغیرہ سے روایت لکھی ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) عصر کے وقت آسمان پر سے نازل ہوگا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۱۲،۱۱۳، خزائن ج۱۷ ص۲۸۱،۲۸۲)
یہ تین حوالے ہم نے مرزاغلام احمد قادیانی کے نقل کئے ہیں۔ جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے کی تصریح ہے اور اپنے اقرار اور بیان سے بڑھ کر آدمی کے لئے اور کیا حجت ملزمہ ہوسکتی ہے۔ صحیح احادیث کے پیش نظر جن کا ذکر اسی پیش نظر کتاب میں باحوالہ ہوچکا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بوقت عصر نہیں بلکہ بوقت صلوٰۃ صبح ہوگا۔ کما مرّ اور حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں کہ: ’’وان ذالک یکون عند اقامۃ صلوٰۃ الصبح‘‘ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول صبح کی نماز کی اقامت کے وقت ہوگا۔ (تفسیر ابن کثیر ج۱ ص۵۸۳)