آنحضرتﷺ اگر بغیر قسم اٹھائے بھی فرمادیتے تو اس میں کوئی شک وشبہ نہ ہوتا۔ مگر اس حدیث میں آپؐ نے قادر مطلق ذات کی قسم اٹھا کر اور پھر لیوشکن کے جملہ میں لام تاکید اور نون تاکید ثقیلہ سے اس کو نہایت ہی مؤکد کر کے فرمایا ہے کہ لامحالہ اور ضرور تم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوںگے۔ اتنی اور ایسی تاکیدات کے حلفی بیان میں کون عقلمند نبی معصومﷺ کے ارشاد میں شک کر سکتا ہے؟ صرف وہی کرے گا جو ایمان اور عقل وبصیرت سے کلیتہً محروم ہوگا۔
عمل ان سے ہوا رخصت عقیدوں میں خلل آیا
کوئی پوچھے کہ ان کے ہاتھ کیا نعم البدل آیا
حافظ ابن حجرؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں۔ ملاحظہ ہو (فتح الباری ج۶ ص۴۹۱،۴۹۲) جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوکر حقیقتاً صلیب کو توڑیںگے اور نصاریٰ پر یہ واضح کریںگے کہ تم صلیب کی تعظیم کرتے رہے اور میں اس کو توڑ کر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ تعظیم کے قابل نہیں بلکہ نیست ونابود کرنے کے لائق ہے اور اسی طرح نازل ہونے کے بعد خنزیر کو قتل کر کے عیسائیوں پر یہ ظاہر کریںگے کہ تم اس کو حلال سمجھتے رہے اور اس سے محبت کرتے رہے اور میں اس کے وجود کو ہی ختم کر رہا ہوں اور جب کافر ہی نہ رہے تو قتال اور جہاد کس سے کیا جائے گا؟ اور جب اہل کتاب اور دیگر ذمی کفار ہی نہ رہے تو جزیہ کس سے وصول کیا جائے گا؟ اس لئے ان کی آمد کے بعد لڑائی اور جزیہ موقوف ہو جائے گا اور ظلم وجور مٹ جائے گا اور عدل وانصاف کے نفاذ اور زمین کی برکات کی وجہ سے کوئی غریب اور محتاج نظر ہی نہیں آئے گا۔ تاکہ اس کا مال دیا جائے اور وہ مال قبول کرے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول نری برکت ہوگی۔ گویا وہ یوں گویا ہوںگے۔
سنے جو اس کو اسے تحیر جو اس کو برتے اسے تردد
ہماری نیکی اور ان کو برکت عمل ہمارا نجات ان کی
دوسری حدیث
حضرت جابرؓ بن عبداﷲؓ (المتوفی۷۴ھ) سے روایت ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرتﷺ سے سنا۔ ’’یقول لا تزال طائفۃ من امتی یقاتلون علی الحق ظاہرین الیٰ یوم القیٰمۃ قال فینزل عیسیٰ بن مریم علیہ السلام فیقول امیرہم تعال فصل فیقول لا ان بعضکم علی بعض امراء تکرمۃ اﷲ ہذہ الامۃ