رہے گا۔ حتیٰ کہ اس وقت ایک ہی ملت باقی رہے گی اور وہ صرف ملت اسلام ہی ہوگی۔ یہی بات حضرت عبداﷲ بن عباسؓ، حضرت حسنؒ (بصری) اور ابومالکؒ نے بیان کی ہے۔}
علامہ موصوف کی تفسیر سے واضح ہوگیا کہ آیت کریمہ کا ظاہر اور سیاق وسباق اسی کو چاہتا ہے کہ بہ کی طرح قبل موتہ کی ضمیر بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہے اور قاضی بیضاویؒ (عبداﷲ بن عمر بیضاویؒ المتوفی ۶۴۸ھ) نے بھی یہ تفسیر نقل کی ہے۔
۳… ’’وقیل الضمیران لعیسی علیہ افضل الصلوٰۃ والسلام والمعنی انہ اذا نزل من السماء آمن بہ اہل الملل لہا روی انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام ینزل من السماء (تفسیر بیضاوی ج۱ ص۲۵۵)‘‘ {اور یہ کہاگیا ہے (اور یہی صحیح اور راجح ہے) کہ دونوں ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان پر افضل صلوٰۃ وسلام ہوں کی طرف راجع ہیں اور معنی یہ ہے کہ جب وہ آسمان سے نازل ہوںگے تو تمام ملتوں والے ان پر ایمان لائیںگے اور احادیث میں مروی ہے کہ وہ آسمان سے نازل ہوںگے۔}
قاضی بیضاویؒ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس تفسیر کی جس میں دونوں ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہیں۔ وہ احادیث بھی تائید کرتی ہیں۔ (جو متواتر ہیں) جن میں ان کے آسمان سے نازل ہونے اور تمام اہل ملل کے ان پر ایمان لانے کا واضح ذکر ہے۔
۴… اور حافظ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں کہ: ’’والقول الصحیح الذی علیہ الجمہور قبل موت المسیح (الجواب الصحیح ج۱ ص۳۴۱، ج۲ ص۱۱۳)‘‘ {اس آیت کریمہ کی تفسیر میں صحیح قول (اور تفسیر) وہی ہے جس پر جمہور اہل اسلام ہیں کہ موتہ میں ضمیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہے۔}
پہلی آیت کریمہ اور اس میں نقل کردہ تفاسیر کی طرح اس دوسری آیت کریمہ اور اس کی تفسیر میں نقل کردہ ٹھوس اور مضبوط حوالوں سے یہ بات بالکل عیاں ہوگئی ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کا رفع الیٰ السمائ، ان کی حیات اور قیامت سے پہلے ان کا زمین پر نازل ہونا نصوص قطعیہ قرآنی آیات سے ثابت ہے۔ جس کا انکار کافر ملحد اور زندیق کے سوا اور کوئی نہیں کر سکتا۔ مگر باطل پرستوں پر براہین قاطعہ اور ادّلہ ساطعہ کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔ وہ اپنی انا اور ضد پر قائم رہتے ہیں۔ بھلا شیطان کی ہدایت کس کے بس میں ہے۔
بدلنا ہے تو مے بدلو یا طریق مے کشی بدلو
وگرنہ ساغر ومینا بدل جانے سے کیا ہوگا