ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
(76) انسان کو اپنی فکر ضروری ہے ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت فلاں جماعت کے لوگ حضرات دیوبندیوں کو ایسا ایسا فرماتے ہیں ۔ فرمایا کہ وہ تو فرماتے ہوں گے یا نہ فرماتے ہوں گے اور نہ ان کے فرمانے کی خبر ہوئی لیکن اصل تکلیف کے سبب تو آپ ہیں کہ تم کو محبت کا تو دعوی اور پھر دوسروں کے اقوال بیان کر کر کے تکلیف پہنچاؤ ۔ اس کی ایسی مثال ہے کہ جیسے ایک دشمن نے پشت کی طرف سے تیر مارا تھا اور وہ نہیں لگا زمین پر گر گیا ۔ کسی دوست نے وہ تیر اٹھا کر اس کو چبھو کر کہا کہ دیکھو فلاں دشمن نے تمہارے یہ تیر مارا تھا تو دشمن تو سبب تکلیف کا نہ ہوا مگر دوست تکلیف کا سبب ہوا بالکل اس وقت آپ کی یہی مثال ہوئی ۔ بھلا تم کو اس بے ہودہ اور فضول کلام کی ضرورت ہی کیا تھی کیا تم اخبار کے ایڈیٹر ہو یا دنیا کی خبریں آپ میں ٹائپ ہوتی ہیں اور آپ ان کو مشتہر کرتے پھرتے ہیں ۔ مجھ کو آپ کے اس وقت کے بے ہودہ کلام گوئی سے سخت اذیت پہنچی یک نہ شددو شد ایک بد فہم سے فراغت ہوئی بھی نہ تھی کہ آپ کو جوش اٹھ کھڑا ہوا ۔ میں اسی واسطے نئے آنے والوں کےلئے مکاتبت و مخاطبت کو پسند نہیں کرتا اور جب کسی کے ساتھ رعایت کا برتاؤ کرتا ہوں یہی نتیجہ نکلتا ہے ہمارے حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اسی طرح ایک شخص نے کسی مخالف کا قول نقل کیا کہ حضرت فلاں شخص آپ کی نسبت یہ کہتا ہے ۔ حضرت نے فرمایا کہ وہ شخص بہت اچھا ہے اس نے اتنا تو لحاظ کیا کہ منہ پر نہیں کہا اور تو اس قدر بد لحاظ نکلا کہ منہ پر کہہ رہا ہے اس وقت وہ شخص مارے ندامت اور شرمندگی کے پانی پانی ہو گیا اور اس کو کبھی چغل خوری کی ہمت نہیں ہوئی حوصلہ پست ہو گیا یہ بھی ایک بڑا مرض ہے کہ دوسروں کے اقوال افعال قصے جھگڑے لئے پھرتے ہیں ارے اپنی خبر لو دوسروں کے تو صرف مکھیاں بھنک رہی ہیں اس پر اعتراض ہے اور اپنے کیڑے پڑ رہے ان کی بھی فکر نہیں انسان کو اپنی فکر ضروری ہے جب اس سے فارغ ہو جائے اس وقت دوسرے کی فکر میں لگے اور ایسا فراغ قبل از موت نصیب نہ ہو گا جس کا حاصل یہ ہے کہ جس کو اپنی فکر ہو گی وہ ساری عمر بھی دوسروں کی حکایت شکایت اور قصوں جھگڑوں میں نہ پڑے گا ۔ کام کرنے والوں کا تو یہ مذہب اور مشروب ہوتا ہے ۔ ماقصہ سکندر و دارا نخواندہ ایم از ما بجز حکایت مہرو وفا مپرس