ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
آئے تھے خود بخود تمام ضروری باتیں بیان کر دیں کہ یہ نام ہے ۔ یہ کام کرتا ہوں ۔ فلاں مقام سے آیا تین دن رہوں گا ۔ ان سے میں نے کچھ بھی نہ کہا ۔ رہے اور چلے گئے ۔ زمانہ قیام میں بھی کوئی ایسی بات نہیں کی جس میں سے کوئی کلفت ہوتی ہر مسلمان کو ایسا ہی ہونا چاہئے کہ اس سے دوسرے کو اذیت نہ ہو تکلیف نہ پہنچے مگر اس کا آج کل کسی کو خیال ہی نہیں ۔ اب زبان بند کئے بیٹھے ہیں ۔ بتلائیے کہاں تک تغیر نہ ہو اور کہاں تک صبر کروں آخر کوئی حد بھی ہے عرض کیا کہ غلطی ہوئی معاف کر دیجئے ۔ فرمایا معاف ہے لیکن میری بات کا جواب دیجئے ۔ عرض کیا اگر حضرت نے مرید بھی نہ کیا تب بھی تین دن رہوں گا ۔ فرمایا کہ اب میں تم کو مشورہ دیتا ہوں کہ وطن واپس ہو جاؤ اور جا کر خط و کتابت سے معاملہ طے کرو مگر یہ مشورہ ہے حکم نہیں اگر اس کے بعد بھی قیام کرنے کو دل چاہے تو اجازت ہے لیکن زمانہ قیام میں خاموش مجلس میں بیٹھے رہنا ہو گا ۔ مکاتبت مخاطبت کی اجازت نہ ہو گی اگر یہ منظور ہو تو مجھ کو ان دونوں میں سے جس کے متعلق رائے قائم کی ہو اطلاع کر دی جائے تاکہ مجھ کو یکسوئی ہو اور دوسرے کام میں لگوں ۔ عرض کیا کہ قیام رکھوں گا اور مکاتبت مخاطبت کچھ نہ کروں گا ۔ فرمایا اگر پہلے ہی اس طرح بول پڑتے تو کون سا قاضی گلا کرتا ۔ آ خراب بھی تو انسانوں کی طرح بول رہے ہو ۔ اب فکر سے کام لیا خود بھی پریشانی سے بچے اور دوسرے کو بھی اذیت سے نجات ہوئی ۔ بس یہ میری بد اخلاقی ہے سخت گیری ہے جس پر بدنام کیا جاتاہوں ۔ (113) حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ سے متعلق ایک امریکن پادری کی رائے ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا ک تحریک خلافت کے زمانہ میں معترضین حضرات تو کہتے تھے کہ انگریزوں سے مل گیا ہے اور دانش مند انگریز یہ سمجھتے تھے کہ عیسائیت کا دشمن ہے ۔ اس زمانہ میں بھائی اکبر علی مرحوم پر فالج کا مرض پڑا ۔ منصوری میں علاج کےلئے گئے تھے ۔ بھائی مرحوم کے لڑکے میاں حامد علی تیمار دار تھے اس زمانہ میں ایک امریکن پادری مع اپنی جماعت کے منصوری آیا ہوا تھا اتفاق سے اس پادری سے حامد علی کی کچھ رسم ہو گئی اور کسی