ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
ہوں حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کی گئی حضرت کا عجیب جواب تھا اس جواب کا رنگ ہی اور ہے فرمایا کہ اگر میں اللہ کے نزیک مقبول ہوں اور ساری دنیا کافر کہے کہا کرے کچھ مضر نہیں ۔ اور اگر اللہ کے نزدیک مردود ہوں اور ساری دنیا غوث قطب کہے تو کچھ نفع نہیں ۔ ایک شخص نے مجھ سے پوچھا کہ یزید پر لعنت کرنا کیسا ہے ۔ میں نے کہا کہ جس شخص کو یقین کے ساتھ ثابت ہو جائے کہ ہم یزید سے اچھے ہیں اس کو جائز ہے ۔ اور یقین مرنے کے بعد ہو سکتا ہے تو پھر قبر میں بیٹھے بیٹھے یہی وظیفہ رٹا کرنا کہ لعنت بر یزید لعنت بر یزید ۔ باقی یہاں تو ابھی اپنی ہی کشتی ڈانوں ڈول ہے بقول کسے گہ رشک بروفرشتہ بر پا کی ما گہ خندہ زند دیوز نا پاکی ما ایمان چو سلامت بہ لب گور پریم احسنت بریں چستی وچالاکی ما حضرت کسی کو کیا خبر ہے کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے ۔ سب سے پہلے اپنی خبر لو اور جب اپنی فکر میں انسان لگا ہوتا ہے اس کو دوسرے کی فکر نہیں ہوتی ۔ دیکھو اگر ایک شخص کو پھانسی کا حکم ہو جائے اور اس کے سامنے کسی دوسرے کا ذکر کرو وہ کہے گا کہ تم اپنی ہی لئے پھرتے ہو مجھے اپنی ہی لگی ہے یہ سب باتیں بے فکری کی بدولت سوجھتی ہیں ۔ کام میں لگو اپنی فکر کرو دوسروں کو چھوڑو ۔ میرٹھ سے ایک صاحب کا خط آیا تھا ۔ ان کا مجھ سے تعلق تھا جس کا خلاصہ دو مضمون تھے ۔ ایک یہ کہ میں اور والد صاحب ایک جگہ رہتے ہیں ۔ میں والد صاحب کو خلاف شرع باتو پر روکتا ہوں وہ نہیں مانتے ۔ دوسرا یہ کہ ایک جگہ رہنے کی وجہ سے اور بھی بعض شکایا پیدا ہو جاتی ہیں ۔ میں نے سارے خط کے جواب میں ایک شعر لکھ دیا جو دونوں مضمون کو جامع تھا وہ شعر یہ ہے ۔ کار خود کن کار بیگانہ مکن در زمیں دیگران خانہ مکن پہلا مصرعہ پہلے مضمون کے متعلق تھا اور دوسرا دوسرے کے متعلق ۔ اس پر انہوں نے عمل کیا فورا دوسری جگہ مکان لے لیا اور کہنا سننا بھی چھوڑ دیا ۔ پھر خط آیا تو لکھا کہ تمام پریشانیاں دفع ہو گئیں ۔ یہ سب تجربہ سے کہہ رہا ہوں ۔ عمل کرکے دیکھو تم کو بھی معلوم ہو جائے گا ۔ (366) مصروف آدمی کا حال ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ جو شخص دوست میں مشغول ہو اس کو دشمن کی کب فکر ہو سکتی ہے اس