ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
پر ہوں ۔ یہ مریض کا سمجھنا غلط ہے ایک مولوی صاحب نے اپنا کچھ حال بیان کیا ۔ میں نے اس کا جواب دیا اس پر مولوی صاحب نے کہا تسلی نہیں ہوئی ۔ میں نے کہا کہ ہم کو تمہاری تسلی مقصود نہیں اپنی تسلی کافی ہے وجہ یہ کہ مبتدی کو نہ مقصود کا پتہ ہے اور نہ طریق کا ۔ (466) انتظام اور اہتمام کی حد ایک مولوی صاحب نے دوسرے مولوی صاحب کے تبلیغ کرنے کا ذکر کیا حضرت والا نے سن کر فرمایا کہ ہر کام اپنی حد پر رہے اسی وقت تک اچھا معلوم ہوتا ہے ۔ یہ انہماک بعض کو نہ معلوم کیوں ہے انتظام اور اہتمام کی بھی تو ایک حد ہے ۔ مثلا اگر حق تعالی چاہتے تو ہر کافر پر ایک ایک فرشتہ مقرر فرمادیتے ۔ ان کی گردوں پر سوار ہوتے اور مسلمان بناتے لیکن ایسا نہیں کیا پس ہر چیز کی ایک حد ہے حد سے گزر کر کوئی کام کرنا خصوصا اس طرز سے کہ نہ اس کے اصول ہوں نہ قواعد محض بے ڈھنگا پن ہے آدمی جو کام کرے طریقہ سے کرے ہر چیز کو اپنی حد پر رکھے میں پوچھتا ہوں کہ مثلا ایسی تبلیغ کہ وعظ ہو رہا ہے جس میں نماز ندارد ہو گئی اس کو حد پر کرنا کہہ سکتے ہیں ۔ یا نماز کے وقت میں تلاوت قرآن کرتا رہے نماز نہ پڑھے ۔ غرض ہر چیز کے حدود ہیں ۔ (467) سارا مدار قوت اور قدرت پر ہے ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ اگر قدرت ہے تو تلوار لے کر غلبہ حاصل کرو منع کون کرتا ہے ۔ اور اگر اس کی قدرت نہیں جیسا کہ ظاہر ہے تو صبر کرو ۔ حق تعالی فرماتے ہیں لا تلقوا بايدكم الي التهلكة سارا مدار قوت اور قدرت پر ہے جیسے نماز روزہ فرض ہے حکومت بھی فرض ہے لیکن اسی وقت جبکہ قدرت ہو اور عدم قدرت پر ایسا کرنا اپنے کو ہلاکت میں پھنسانا ہے ۔ اور کافی قدرت کا نہ ہونا اظہر من الشمس ہے ۔ اور جتنی قدرت ہے اس کی بالکل ایسی مثال ہے کہ کسی نے دیا سلائی جلائی اور اس پر دوسرے نے ہاتھ رکھ دیا بجھ گئی ۔ ایسی قوت اور قدرت سے کیا کام چل سکتا ہے ۔ (468) جہاد کے فرض ہونے کا سبب ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت اتنا کام جس کی مسلمانوں کو ضرورت ہے صلح سے بھی ہو سکتا ہے پھر جہاد کیوں فرض ہے ۔ فرمایا کہ ایک اور صاحب نے بھی مجھ سے یہ بات