ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
چپکے سے اٹھ کر چلے آتے ۔ انہوں نے کہا کہ لیکن تم جیسے نماز کو کیسے آتے ۔ کہہ دینے میں یہ مصلحت ہوئی کہ جس قدر مسلمان اس مجمع میں تھے سب کو نماز کے لئے اٹھنا پڑا اس لئے کہ اگر نہ گئے تو ویسرائے کہے گا کہ یہ بے نمازی ہیں ۔ غرض آدمی کے پختہ ہونے کی ضرورت ہے اس سے دوسروں پر خود بخود اثر ہوتا ہے بڑی زبردست تبلیغ تو یہی ہے کہ خود پختہ ہو ۔ (202) دینداروں کو نصیحت ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ دینداروں کو اہل دنیا خصوصا امراء سے ایسا تعلق جس سے تملق کی شان معلوم ہو نہیں رکھنا چاہئے اس میں دین اہل دین کی تحقیر ہوتی ہے باقی مطلق تعلق کو منع نہیں کرتا لیکن تعلق کے حدود ہیں ۔ حافظ محمد ضامن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے حافظ محمد یوسف صاحب ریاست بھوپال میں تحصیلدار تھے ان سے مولوی عبد الجبار صاحب وزیر ریاست نے ملاقات کرنا چاہی اور عذر کردیا مگر بے حد اصرار اور سفارش پر کہا کہ چند شرطیں ہیں اگر وہ منظور ہوں ملاقات کرسکتا ہوں ۔ ایک تو یہ کہ جب جاؤں میری تعظیم کو نہ اٹھیں دوسرے جہاں بیٹھوں وہاں سے مجھ کو اٹھائیں نہیں ۔ تیسرے جب میں اٹھ کر چل دوں مجھ کوروکیں نہیں ۔ وزیر صاحب نے سب کو منظور کرلیا ۔ ملاقات کو گئے وہ تعظیم کو کھڑے ہونے لگے ۔ کہا دیکھئے شرط اول کی مخالفت ہو رہی ہے وہ بیٹھ گئے ۔ ایک معمولی جگہ پر بیٹھ گئے ۔ وزیر صاحب نے ممتاز جگہ بیٹھنے کو کہا ۔ کہنے لگے کہ دیکھئے شرط ثانی کی مخالفت ہو رہی ہے ۔ خیریت مزاج پرسی ہونے کے بعد وزیر صاحب نے کہا کہ میں کوئی عہدہ آپ کو دینا چاہتا ہوں آپ جو عہدہ منظور کریں اور پسند کریں کہا کہ میرے پچاس روپیہ تنخواہ ہے اس سے کم میں گزر مشکل ہے اس لئے یہ تو ضرور ہو ۔ باقی عہدہ ۔ سو اس کے متعلق یہ ہے کہ چاہے بھنگیوں کا جمعدار کر دیجئے ۔ یہ کہا اور السلام علیکم کہہ کر اٹھ کر چل دیئے ۔ یہ شان ہے اہل دین کی ۔ ان ہی حافظ صاحب کا واقعہ ہے ایک درویش بھوپال میں آیا خدا معلوم مسمریزم کی اس کو مشق تھی یا کیا بات تھی وہ توجہ سے لوگوں پر اثر ڈالتا تھا اور امراء کو لوٹتا تھا ۔ حافظ محمد یوسف صاحب کے پاس بھی پہنچا وہ کچھ لکھ رہے تھے ان پر بھی توجہ کی حافظ صاحب کو ادراک ہوگیا انہوں نے خود اس کی طرف جو توجہ کی اور یہ شعر پڑھا ۔