ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
کو شکایت ڈھیلے پن کی ہے (یا ء اول معروف ہے ) اور کسی کو ڈھیلے پن کی (یائے اول مجہول ہے ) اس کی صرف ایک صورت ہو سکتی ہے کہ آنے والوں سے پوچھا کروں کہ تم کو نرمی پسند ہے یا سختی ۔ پھر اس میں بھی اس کی ضرورت ہو گی کہ دو کو ایک مجلس میں جمع نہ کروں تاکہ ایک کو دوسرے کی سختی نرمی کا علم نہ ہو ۔ اور اس کے ساتھ اس کی بھی ضرورت ہو گی کہ ان سے یہ بھی کہا کروں کہ تمہارے ساتھ جو برتاؤ کیا گیا ہے اس کا کسی سے ذکر مت کرنا کہ نرمی کی ہے یا سختی ورنہ اس علم کے ساتھ پھر اعتراض رہے گا جب اتنا اہتمام کروں تب ساری مخلوق کو راضی رکھ سکتا ہوں ۔ سو اس قدر اہتمام کون کرے ۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ایک شخص اپنی بیوی بچوں کو ساتھ لے کر چلا تھا اور ایک ٹٹو پاس تھا اور اس پر سوار ہونے اور پیادہ چلنے کی تمام محتمل صورتوں کو اختیار کیا تھا اور سب میں اعتراض ہی سنتا رہا آخر عاجز ہو کر یہی فیصلہ کیا کہ سب اپنی ایسی تیسی میں جاؤ اب جو جی میں آئے گا وہ کریں گے ۔ تو صاحب مخلوق کے اعتراضات سے تو کسی طرح بچ نہیں سکتے ۔ حیدرآبار والے ماموں صاحب فرمایا کرتے تھے ۔ بڑے دانشمند تھے گو مسلک تو ہمارے مسلک کے خلاف تھا ۔ اہل سماع میں سے تھے اس میں بھی کچھ مبالغہ ہو گیا تھا مگر دوکاندار نہ تھے باتیں بھی حکیمانہ ہوتی تھیں وہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ہر قسم کی کتاب میں سے ایک ایک کار آمد بات منتخب کر رکھی ہے چنانچہ منظوم گل بکاؤلی ایک کتاب ہے اس میں سے بھی ایک شعر منتخب کیا ہے حالانکہ گل بکاؤلی ایک لغو اور واہیات کتاب ہے لیکن اس میں سے بھی ایک شعر انتخاب کیا تھا ۔ سن لاکھ تجھے کوئی سناوے کیجیئو وہی جو سمجھ میں آوے میں اس قید کا اور اضافہ کرتا ہوں کہ جہاں احکام شرعی سے مزاحمت ہو وہاں سمجھ کو ترک کرنا ہو گا وہ اس سے مستثنی ہے ۔ (154) عورتوں کو اشغال کی ضرورت نہیں فرمایا کہ ایک بی بی کا خط آیا ہے لکھا ہے کہ میں چاہتی ہوں کہ نیچے کے سانس ہو اور اوپر کے سانس سے اللہ کہا کروں ۔ میں نے لکھ دیا کہ ان پڑھ آدمی کو خصوصا عورت کو ایسے اشغال کی ضرورت نہیں سیدھے سیدھے کلمہ شریف کا ورد رکھو اور شریعت کی پابند رہو ۔ اس پر