ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
پر روک ٹوک بھی ہے اور جگہوں میں تو دہ دردہ معاملہ ہے ۔ پیر الگ اینٹھتے ہیں ۔ مرید الگ ۔ خادم الگ سفارشی الگ خانقاہیں کیا ہیں کچہری بنا رکھی ہیں جسیے وہاں رشوتوں کا بازار گرم ہے کہ حاکم الگ لیتا ہے ۔ پیش کار الگ اردلی الگ سب کے حق بندھے ہوئے ہیں ایسے ہی آج کل رسمی اور دکاندار پیروں کے یہاں خانقاہیں ہیں سب کے حقوق اور نذرانے بندھے ہوئے ہیں ۔ بعض کے یہاں تو رجسٹر ہیں جن میں وصول اور باقی کے خانے ہیں ۔ باقاعدہ وصول ہوتا ہے جیسے گورنمنٹ کی مال گذاری یا زمینداری کی باقی وصول ہوتی ہے میں تو بحمد اللہ اس شخص ہدیہ بھی نہیں لیتا کہ جس سے خاص جان پہچان نہ ہو اس لئے کہ اس کا پتہ چلنا دشوار ہے کہ نیت کیا ہے اور خلوص سے دے رہا ہے یا نہیں اس لئے خصوصا تعلق کو اس کا قائم مقام قرار دیدیا ہے ۔ جیسے سفر میں قصر کی اصل علت مشقت ہے لیکن اس کی پہچان اور اس کا معیار مشکل تھا اس لئے سفر کو اس کے قائم مقام کر دیا گیا ایسے ہی ہدیہ میں خلوص نیت کا معیار معلوم ہونا مشکل تھا میں نے خصوصیت کی جان پہچان کو اس کا قائم مقام کر دیا ہے ۔ 9/ رجب المرجب 1351ھ مجلس خاص بوقت صبح یوم چہار شنبہ (136) نیچریت کی نحوست ایک صاحب نے بسبیل گفتگو حضرت والا سے عرض کیا کہ ایک صاحب ہیں ان کا نام تو سراج الدین اسلامی نام ہے لیکن اعمال اور صورت دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ بالکل عیسائیت ہی کا رنگ ہے اور اس کے ساتھ ہی ان صاحب کے بعض عقائد بھی حضرت والا سے بیان کئے حضرت والا نے سن کر فرمایا کہ سراج کی دو حالتیں ہیں ۔ ایک نارکی ۔ ایک نور کی تو یہ شخص نارالدین ہے ۔ دین کو آگ لگا دی ۔ سراج میں یہ بھی تو صفت ہے کہ جس چیز سے اس کو لگا دیا جائے اس کو جلادے تو یہ ایسے ہی سراج الدین ہیں اور یہ سب انگریزی تعلیم اور نیچریت کی نحوست ہے کہ لوگوں کے عقائد اعمال صورت سیرت سب بدل گئے اور دین بالکل تباہ و برباد ہو گیا ۔ ان کی رفتار گفتار نشست و برخاست خورد و نوش سب میں دہریت و نیچریت و الحاد کا رنگ جھلکتا ہے ۔ اور ہندوستان میں اس نیچریت کا بیج سر سید کا بویا ہوا ہے جس وقت سر سید نے علی گڑھ کالج کی بنیاد ڈالی تو اپنے ایک مصاحب سے کہا کہ تم گنگوہ جاؤ