ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
(172) سفارش میں غلو کی مذمت ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ آج کل یہ سفارش کا باب بھی نہایت مکروہ ہے ۔ ایک صاحب یہاں پر آئے تھے لکھے پڑھے تھے ایک ہزار روپیہ کے قرضدار تھے مجھ سے ایک صاحب کے پاس سفارش کرائی ۔ میں نے اس شخص کو لکھا ۔ بس آگے کیا عرض کروں انہوں نے بہت ہی کم مقدار میں لکھا ہے کہ دے سکتا ہوں جس کو اس قرض کی مقدار سے کوئی نسبت ہی نہیں اب اگر سفارش نہ کرتا تو یہ صاحب یہی سمجھتے کہ خشک برتاؤ کیا ۔ ذرا قلم چلانے پر میرا کام ہو جاتا اور سفارش کا یہ نتیجہ ہوا ۔ اب ان واقعات کو پیش نظر رکھ کر اگر ان تجربات کی بناء پر میں خاص قواعد مقرر کروں تو کیا جرم ہے اور میرے تمام اصول اور قواعد کی بناء یہی تجربات ہیں ۔ بارہا کے تجربوں کے بعد ایک قاعدہ مقرر کرتا ہوں ۔ اگر ان سب کی بناؤں کو بیان کروں تو ایک اچھا خاصہ رسالہ بڑی ضخامت کا تیار ہو جائے مگر لوگ ان میرے اصول اور قواعد کو نرا فرضی قانون سمجھتے ہیں مگر قانون بنا کر کیا مجھ کو حکومت کرنا ہے ۔ میرے تمام قانونوں کی بنا محض طرفین کی راحت کی رعایت ہے ۔ (173) شریعت کا کام تدابیر بتلانا نہیں ایک خط کے جواب کے سلسلہ میں فرمایا کہ شریعت کا نام محض احکام بتلانا ہے باقی مقاصد کی تدابیر بتلانا یہ شریعت کا کام نہیں ۔ مثلا شریعت کا فرض یہ ہے کہ آمدنی کے ذرائع کے جواز وعدم جواز کو بتلا دے باقی اس کا یہ فرض نہیں کہ یہ بھی بتلاوے کہ جب کثرت عقود فاسدہ کی ہو تو کہ پھر ہم کون سا ذریعہ معاش کا اختیار کریں جس میں کوئی خرابی شرعی نہ ہو ۔ اگر کسی مفتی سے یہ پوچھو کہ طبیب یہ کہتا ہے ۔ شریعت کا کیا حکم ہے تو مفتی کہے گا کہ شریعت یہ کہتی ہے کہ جائز ہے قے کرنا ۔ باقی اس فعل کی کیا تدبیر ہے تو اس کو خود متعین کرو پھر اس کاحکم بھی شریعت سے معلوم کر لو ۔ مگر آج کل لوگ ہر کام کا شریعت ہی کو ذمہ دار سمجھتے ہیں جو سخت غلطی ہے ۔ افسوس ہے خود اہل علم کو ان باتوں کی خبر نہیں وہ جواب میں ان حدود کی رعایت نہیں رکھتے ۔