تھے کہ گجرات علمِ حدیث کا مرکز بن چکا تھا، علامہ سخاوی ،حافظ ابن حجر مکی ،شیخ الاسلام زکریا اور سید شریف جرجانی کے تلامذہ کافی تعداد میں یہاں بس چکے تھے، ان ہی میں علامہ سخاوی کے شاگرد مولانا عبدالملک حافظ بخاری شریف بھی شامل ہیں ، یہاں کی درسگاہیں ہندوبیرون ہند سے تشنگان علوم ومعرفت کو کھینچتی تھیں ،بقول مولانا سید عبدالحی لکھنویؒ علوم وفنون میں اگر گجرات شیرازتھا تو حدیث شریف کی خدمات کے لحاظ سے یمن میمون سے مماثلت رکھتا تھا، یہاں کے سیکڑوں دیہات حرمین شریفین کے مصارف کے لئے وقف تھے۔(مقالات سلیمانی:۲؍ ۳۷۹)
بخاری شریف کی دوشرحیں ’’مصابیح الجامع‘‘ اور’’ فیض الباری ‘‘جو ہندوستان میں بخاری شریف کی سب سے قدیم شرحیں ہیں اسی سرزمین پر لکھی گئی تھیں ۔ سولہویں اور سترہویں صدی میں تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دینی اور ثقافتی زندگی کا مرکز ثقل گجرات کی طرف منتقل ہوگیا ہے ۔ شاید ہی کوئی دینی یا علمی شعبہ ایسا ہو جس کے متبحر عالم یہاں موجود نہ ہوں ۔ شیخ سید یٰسین گجراتی جنہوں نے پنجاب ،بنگال اور خاص کر صوبۂ بہار میں حدیث شریف کادرس جاری کیا، بقول مولانا سید سلیمان ندویؒ یہ پہلا موقع تھا کہ بہار کی خانقاہ سے قال اللہ وقال الرسول ﷺ کا ترانہ سمع نواز ہوا ۔ (مقالات سلیمانی:۲؍۳۴)
علامہ بدرالدین دمامینی- جن کاوطن مصرہے-نے گجرات تشریف لانے کے بعد مصابیح الجامع فی شرح صحیح البخاری تصنیف فرمائی، اس کا تذکرہ نواب صدیق حسن خان نے اتحاف النبلاء المتقین بإحیاء مآثر الفقھاء المحدثین میں کیا ہے۔
شیخ محمد بن طاہر پٹنی کی تالیفات کے مخطوطات مختلف کتب خانوں میں پائے جاتے