ختم ہوگیا ہو، جیسے: شعبة عن عاصم بن عبید اللہ عن عبد اللہ بن عامر بن ربیعة عن أبیه: أن امرأۃة من بني فَزَارة تزوجَتْ علیٰ نعلین، فقال رسول اللہ ﷺ: أرضیتِ من نفسكِ وما لكِ بنعلین؟ قالت: نعم! قال: فأجازہ. قال الترمذي: وفي الباب عن عمر وأبي ھریرۃة وعائشة وأبي حَدْرَد.۱ (ترمذی، باب ماجاء في مھور النساء، برقم: ۱۱۱۳)
۵حدیثِ ضعیف وہ ہے جس میں صحیح وحسن کی تمام شرائط یا بعض نہ پائی جائیں ، جیسے: ’’من أتی حائضا أو امرأة في دُبُرھا أو کاھنا فقد کفَر بما أنزل علی محمد‘‘.۲ (ترمذی، باب ما جاء في کراھیة إقبال الحائض، برقم: ۱۳۵)
حکم: حسن لذاتہ سے کمتر اور حدیث ضعیف سے برتر ہے؛ اسی بناء پر لائقِ استدلال وحجت ہے؛ البتہ بوقتِ تعارض حسن لذاتہ راجح ہوگی۳۔
۱ اس حدیث میں عاصم سوئِ حفظ کی وجہ سے ضعیف ہے؛ مگر امام ترمذی نے اس کو متعدد طرق سے مروی ہونے کی وجہ سے حسن کہا؛ لہٰذا یہ حدیث حسن لغیرہ ہوگی۔ (تیسیر مصطلح الحدیث: ۵۳)
۲ اس روایت میں حکیم الاثرم نامی راوی ضعیف ہے۔ حافظ ابن حجرؒ ان كے بارے میں فرماتے هیں : ’’فیه لین‘‘. (تقریب)
۳ امام ترمذی اور ان کی حسنیت: کوئی راوی متہم بالکذب نہ ہو، روایت شاذ نہ ہو اور دیگر طرق سے حدیث کا یہ مضمون منقول ہو (اگرچہ صحابی یا تابعی کا غیر مرفوع قول ہی کیوں نہ ہو)؛ لہٰذا امام کی صفتِ حسن درجۂ ذیل احادیث کو شامل ہوگی:
(۱) ثقہ کی حدیث جس میں معمولی کلام ہو۔ (صحیح لذاتہ:۳)، (۲) صدوق غیر ضابط کی حدیث۔ (حسن لذاتہ:۱، طرقِ متعددہ سے صحیح لغیرہ)، (۳) ایسے ضعیف کی حدیث جو متہم بالکذب کی حد کو نہ پہنچا ہو۔ (حسن لغیرہ:۲)، (۴) خراب حافظے والا ہو اور غلطی وخطا سے متصف ہو۔ (حسن لذاتہ:۱)، (۵) مستور جس کے متعلق جرح وتعدیل منقول نہ ہو۔ (متوقف فیہ، متابعات وشواہد ملنے Û