باطل کا نام پر جو جال کافر ڈالتا تھا اس میں خوب مچھلیاں آجاتی تھیں ، حق تعالی کا ارشاد ہوا کہ مؤمن جتنی بار جال پانی میں ڈالتا تھا اور اس کے خالی آنے پر ملول و شکستہ خاطر ہوتا تھا اتنی ہی بار میں اس کی شکستہ دلی کی وجہ سے بہشت میں اس کو ایک نیا درجہ عطا کرتا تھا۔(۱)اور جب و ہ کافر بتوں کے نام پر جال ڈالتا تھا اور مچھلیاں آنے پر خوش ہوتا تھا تو میں اس کی اس خوشی کے بقدر جہنم میں ایک اور درجہ دینے کا حکم دیتا تھا ؎
ما پروریم دشمن و ما می کشیم دوست
کس را رسد نہ چون و چرا در حضورِ ما
اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ حدیث میں آتا ہے کہ جب کوئی غریب مسلمان بازار جاتا ہے اور بازار کی نعمتیں دیکھتا ہے، لیکن اپنی تنگ دستی کی وجہ سے خرید نہیں سکتا اور اس پر صبر کرتا ہے ، اللہ تعالی اس کے صبر کے معاوضہ میں جنت میں اس کو نیا درجہ عطا فرماتا ہے۔
اسی مجلس میں حکایت بیان فرمائی کہ ایک بار سلطان ابراہیم ادہمؒ حج کے لئے آئے ہوئے تھے، قربانی کے دن حجامت بنوانے کی ضرورت ہوئی اور ایک حجام سے بات کی لیکن جس وقت اس نے بال کاٹنے شروع کئے اسی وقت ایک مال دار آدمی جو اس کو ایک دینار اجرت دینے پر تیار تھا آگیا اور اس نے اس سے کہا کہ میری حجامت بنادو، پیسہ کی لالچ میں وہ ابراہیم ادہمؒ کو چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوگیا اور جب اس سے فارغ ہوا تو پھر ان کی طرف آیا، ابھی تھوڑے ہی بال کاٹے تھے کہ ایک اور صاحبِ دینار آگیا اور وہ حجام ان کو چھوڑ کر پھر اس کے بال کاٹنے میں مشغول ہوگیا، غرض پانچ یا چھ مرتبہ یہ قصہ پیش آیا، آخر کسی نہ کسی طرح وہ جب سلطان ابراہیم ادہمؒ
------------------------------
(۱) ؎
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ، ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں