بد زبان شخص کو سخت ناکامی و ذلت اٹھانی پڑی تھی، ذیل میں چند واقعات پیش کئے جاتے ہیں جن سے اس پر روشنی پڑتی ہے اور بڑا سبق حاصل ہوتا ہے:
لوہانی پور ایک گاؤں ہے جو دائرہ شاہ علم اللہؒ کے بالکل سامنے جانب مشرق واقع ہے، وہاں افغان زمینداروں کی دو برادریاں آباد تھیں ، ایک کانکڑ(اسی کانکڑ قوم سے دولت خاں بھی تھے جنھوں نے شاہ علم اللہؒ کو دس بیگھہ زمین رہنے کے لئے ہبہ کی تھی) دوسرے ترین،ترین برادری کے لوگ شاہ صاحب کے سخت دشمن تھے، یہ لوگ خانقاہ میں آنے والوں اور شاہ صاحب کے مریدین کے راستہ میں کانٹے بچھادیتے تھے، بعض وقت رات میں کسی درخت کی آڑ میں چھپ جاتے تھے، جب اہلِ خانقاہ کسی ضرورت سے شہر جاتے تو جو کچھ ان کے پاس ہوتا وہ لوٹ لیتے اور ان کو قید کرلیتے، جب لوگ شاہ صاحب سے ان باتوں کا شکوہ کرتے تو شاہ صاحب فرماتے کہ صبر سے کام لو، اس میں تمھارے لئے ثواب ہے، یہ کانٹے جو تمھارے لئے بچھا رہے ہیں دراصل اپنے حق میں بورہے ہیں ، اللہ تعالی کے حکم سے وہاں کی ساری برادری تباہ ہوگئی، سید محمد ہدی، فرزند حضرت سید شاہ علم اللہ ؒکے عہد میں ان میں سے ایک آدمی زندہ تھا وہ بھی سیلاب ِ فنا کے نذر ہوگیا۔(۱)
قصبہ نصیر آباد و پرگنہ روکھاکے چودھری و رؤساء اس قصبہ کے اشراف خصوصاً سادات پر بہت مظالم کر رہے تھے اور سب لوگ ان کی چیرہ دستیوں سے عاجز اور پریشان تھے، ایک دفعہ یہ لوگ تکیہ آئے اور طالبِ دعا ہوئے، سید شاہ علم اللہؒ نے فرمایا کہ خدائے قہار منتقم حقیقی ہے، اور وہ عنقریب تمھاری مدد کرے گا۔ اللہ تعالی نے شاہ صاحب کی دعا قبول فرمائی، ان ہی ایام میں راجہ موہن سنگھ نے حملہ کرکے ان تمام چودھریوں کو ذلیل و خوار کر کے نکال دیا اور ان کے آثار و باقیات بھی باقی نہ چھوڑے۔(۲)
------------------------------
(۱) و (۲ ) تذکرۃ الابرار