تشریف لائے، دروازے پر پہنچے تھے کہ دو سپاہی حضرت کی ملاقات کو تشریف لائے، آپ دروازے سے واپس ہوئے اور ان کی خاطر سے اپنی نشست گاہ میں آکر بیٹھ گئے، آپ نے ان سے فرمایا کہ تم شادی و غمی میں اپنے عزیز و اہلِ برادری کے ساتھ کیا عمل کرتے ہو، سنت کے موافق یا بدعت کے؟ ان میں سے ایک نے جو حضرت سے پہلے تعلق رکھتا تھا جواب دیا: ہمارا عمل حضرت کی مرضی اور ارشاد کے موافق ہے اور ہم شادی و غمی میں کسی بدعت کی محفل میں شریک نہیں ہوتے، فرمایا: جزاک اللہ، اس کے ہمراہی نے کہا کہ ہمیں جب اللہ توفیق دے گا تو ہم بھی بدعت کے ان کاموں سے باز آجائیں گے، ہمارا اس میں کچھ اختیار نہیں ، حضرت نے فرمایا: اس طرح مت کہو، ہر عاقل و بالغ کو اللہ نے اختیار دیا ہے، اور یہ کہنا کہ اللہ توفیق دے‘ کل قیامت میں یہ دلیل کچھ کام نہ آئے گی، اگر یہ دلیل کارآمد ہو تو ہر شخص کی گلو خلاصی ہوجائے۔ دیکھو حضرت آدم علیہ السلام یہ جانتے تھے کہ ان کا گیہوں کھانا ایک تقدیری امر تھا‘ لیکن انھوں نے بھی اپنی تقصیر کا اعتراف کیا اور کہا: ربنا ظلمنا أنفسنا، یعنی اے ہمارے رب! ہم نے بڑا نقصان کیا، اور یہ نہیں کہا کہ اے اللہ! گیہوں نہ کھانے کی توفیق تو نے کیوں نہیں دی، کسی آدمی کا کسی پر قرض ہوتا ہے اور وہ آدمی اس سے مطالبہ کرتا ہے تو قرضدار یہ نہیں کہتا کا اگر خدا توفیق دے گا تو تیرا قرض ادا کردوں گا، بلکہ چارو ناچار کہیں نہ کہیں سے انتظام کرنا پڑتا ہے،