نہیں کرتے، ایک رسالہ ’’قوت العمل‘‘ کے نام سے تحریر فرمایا ہے،جو امر بالمعروف اور ایسے بہت سے حقائق و معارفِ الہیہ پر مشتمل ہے کہ عارفین کے سوا ہر شخص کما حقہ نہیں سمجھتا، اپنے احوال کا بہت اخفاء فرماتے ہیں اور اپنی عاجزی اور شکستگی ظاہر کرتے ہیں ، اکثر لوگ ان کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ شاید صحابہ کرام ایسے ہی ہوں گے، پابندِ شرع دوستوں اور طالبین کے ساتھ بڑی خوش خلقی اور تواضع کے ساتھ پیش آتے ہیں ۔ ’’وإنک لعلی خلق عظیم‘‘ کی متابعت کا پر تو آپ میں بہت نمایاں ہے۔‘‘
شیخ عبد المجید ابدال (شاہ صاحب کے ایک معاصر بزرگ) فرماتے تھے کہ اتباعِ سنت اور رسول اللہ ﷺ کی پیروی میں سید علم اللہ صاحبؒ کی مثال اس زمانہ میں نہیں ہے اور سلف میں بھی خاص خاص لوگ اس درجہ کے ہوئے ہیں ، آپ کو رسول اللہ ﷺ کی فرزندی کے علاوہ آپ کی محبوبیت بھی حاصل ہے، آپ کی اس مقبولیت اور محبوبیت کے بہت سے واقعات اور رویائے صادقہ کتابوں میں مذکور ہیں ۔(۱)
شیخ عبد الحکیم اپنے زمانہ کی شہادت لکھتے ہوئے کہتے ہیں :
’’دریں زمانہ مشہور است کہ ہم چنیں استقامت در شریعت و طریقت و مطابقتِ سنت کم کسے خواہد بود الا ما شاء اللہ۔‘‘(۲)
صاحبِ ’’احسن القصص‘‘ اپنا تاثر لکھتے ہیں :
’’چندے کہ او در امور اجرائے شریعت و اعلاء اوامر و نواہی بجا آوردہ زمانہا است کہ تحریر قلم یاد ندارد‘‘۔(۳)
------------------------------
(۱) سیرت سید احمد شہید از مولانا سید ابو الحسن علی ندوی، ص: ۶۳
(۲) ایضاً
(۳) بحرِ زخار (منتخب)