پورا دور عسرت اور مجاہدات کا دور ہے، صاحبِ استطاعت اہلِ تعلق میں سے اگر کوئی ہدیہ پیش کرتا یا کوئی چیز لاتا تو اس کو اکثر قبول نہ کرتے تھے اور صرف اس کی چیز قبول کرتے تھے جس کا عمل ‘ مصنف ’’بحرِ زخار‘‘ کے الفاظ میں ’’سنت سے سرِ مو متجاوز‘‘ نہ ہو، لیکن یہ بات جو سید شاہ علم اللہؒ میں محض فضلِ الہی اور توفیقِ خداوندی(۱)اور ان کے اخلاص و قربانی و نفس کشی کی بدولت پیدا ہوئی تھی، ہر کس و نا کس میں کہاں ہوسکتی تھی، اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان ہدایا کا عدم و وجود برابر تھا اور ان سے ان کو کوئی مدد نہیں ملتی تھی۔
در حقیقت یہ صرف چودہ سال یا پچیس سال کی بات نہ تھی ؛ بلکہ ان کی پوری زندگی اسی عزیمت وتوکل اور اسی اتباعِ سنت کا نمونہ تھی اور اس میں شروع سے آخر تک یہی رنگ برقرار رہا۔
سید شاہ علم اللہؒ کے سفرِ ہجرت کے فسخ میں جو مصالح تھے اس کو اللہ تعالی ہی زیادہ بہتر جانتا ہے ، لیکن اس میں شک نہیں کہ سالہا سال تک اس شب و روز کے مجاہدہ اور عزیمت کی زندگی کے بعد جو انوارِ سنت سے معمور تھی بارگاہِ نبوی میں حاضری کا مزہ ہی کچھ اور تھا، زمین تیار تھی اور بس اس کی دیر تھی کہ رحمتِ الہی جوش میں آئے اور ابرِ رحمت اس کو اس طرح سرسبز و شاداب کردے کہ پھر اس پر کبھی خزاں نہ آئے اور یہ شادابی نسلوں اور صدیوں تک برقرار ہے، ؎
ادھر بھی ’’ابرِ رحمت‘‘ آئے اور جم جم کے یوں برسے
کہ ہو سرسبز کھیتی ہم غریبوں بدنصیبوں کی
------------------------------
(۱) خواجہ کڑک جن کا ذکر سید رکن الدین کے تذکرہ میں گزرا ہے، ایک مرتبہ اپنے جذب و حال میں سید رکن الدین سے ایسی بات کے طالب ہوئے جو شریعت کے خلاف تھی، قاضی سید رکن الدین (نبیرہ سید قطب الدین محمد الحسنیؒ) جو ایک متبعِ سنت شیخِ وقت اور قاضء شہر تھے وہ بھلا اس بات کو کس طرح قبول کرتے، انھوں نے انکار کیا، دوسرے وقت خواجہ مجذوب نے ان سے کہا کہ: نصیبِ شما از کاسۂ خدا است…’’۔ در حقیقت سید شاہ علم اللہؒ کا حصہ اسی ‘‘کاسۂ خدا’’ سے تھا اور یہ وہ چیز ہے جس کا اندازہ کسی دوسرے پیمانہ سے نہیں کیا جاسکتا۔