’’بحرزخار‘‘ سے ملے گی جس میں صرف ان کے چودہ سال کے مجاہدات کا ذکر ہے:
’’تا چہادہ سال لقمۂ حلال دانستہ بیشتر اوقات از شکارِ ماہی و اثمارِ گولرِ خام و گوکھر و جوش دادہ خوردے، و در اہلِ خانہ و عیال و اطفال را نیز ہمیں غذا مقرر بود و از خاصہ در تقسیمِ طعام کہ مجاہدہ مرعی داشتہ او تسویہ تقسیم درمیانِ صغیر و کبیر، پیر و جوان و عبد و مولا و مقیم و مسافر از عہدے در سلف تا خلف بہ عمل نیامدہ، و مردے نگشتہ کہ در مقدار و در اقسامِ طعام از نفیس و کثیف اصلاً تفاوت بہ میان نیاوردے، چون بہ مدینہ طیبہ رفت بہ نہجیکہ در اتباعِ سنتِ نبوی ﷺ دقیقے نا مرعی نہ گزاشتہ۔(۱)
(۱۴؍سال تک اکلِ حلال کی فکر و جستجو میں زیادہ تر مچھلی کے شکار اور کچے گولر اور گوکھرو اُبال کر کھالیا کرتے تھے، اہل خانہ اور فرزندوں کے لیے بھی یہی غذا مقرر تھی، تقسیمِ طعام میں چھوٹے بڑے، پیرو جوان، آقاو غلام، مقیم و مسافر کسی میں تفریق نہ کرتے تھے اور اس کا اس قدر اہتمام تھا کہ شاید سلف سے خلف تک کسی نے اس پر عمل نہ کیا ہو اور کوئی مرد ایسا دیکھنے میں نہیں آیا کہ کھانے کی مقدار یا اس کی اچھائی اور بُرائی اور کثافت و لطافت میں تفاوت کو راہ نہ دے، جب مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو اس طرح زندگی گزاری کہ سنتِ نبوی کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔)
دسترخوان کی اس مساوات کا ذکر دوسرے حوالوں سے بھی ثابت ہے اور اس کی بعض قابلِ ذکر باتیں اپنی اپنی جگہ آئیں گی، بہرِ حال اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ
------------------------------
(۱) بحرِ زخار (منتخب)