معمولات پورے کرنے کے بعد ان سے ملنے تشریف لے گئے اور ان کے ساتھ بالکل وہی معاملہ پیش آیا جو ان کے ایک مورث سید رکن الدینؒ کو خواجہ کڑک مجذوب (اصل نام سید احمد) کے ساتھ پیش آیا تھا۔
شاہ عبد الشکور برہنہ رہا کرتے تھے اور اپنے چند معتقدین کے ساتھ اسی حال میں بیٹھے تھے کہ اچانک عجلت کے ساتھ ایک چٹائی اپنے اوپر لپیٹ لی۔ یہ بات بالکل خلافِ معمول تھی، حاضرین نے تعجب سے دریافت کیا تو فرمایا کہ:’’منئی آوت ہے، منئی آوت ہے‘‘ یعنی آدمی آتا ہے، آدمی آتا ہے، انھوں نے عرض کیا کہـ:’’ ہم منئی نہیں ہیں ‘‘ فرمایا :’’نہیں ‘‘، عین اسی وقت سید شاہ علم اللہؒ وہاں پہونچ گئے۔
سید شاہ علم اللہؒ نے دیکھا کہ ایک بزرگ چٹائی لپیٹے ہوئے بیٹھے ہیں اور ان کے سامنے کچھ آدمی ہیں ، سلام کر کے بیٹھ گئے، شاہ عبد الشکور بہت گرم جوشی اور اخلاق سے ملے اور پوچھا : کہاں کا ارادہ ہے؟ سید شاہ علم اللہؒ نے کہا حرمین شریفین کا قصد ہے، شاہ عبدالشکور نے کہاکہ تم وہاں نہ جاؤ، یہیں رہو، سید شاہ علم اللہؒ نے نہ مانا اور ان کے بار بار اصرار کے باوجود بھی اس پر تیار نہ ہوئے، شاہ عبدالشکورؒ سے جب بھی ملاقات ہوتی وہ آپ کو ہجرت سے باز رکھنے کی کوشش کرتے اور کہتے کہ اسی شہر میں اقامت اختیار کرلیں اور اس کو وطن بنالیں ، لیکن سید شاہ علم اللہؒ پر سفر کا اتنا تقاضا تھا کہ وہ اس پر غور کرنے کے لیے بھی تیار نہ تھے۔
جس روز قیام کا آخری دن تھا اور صبح آپ کو سفر کرنا تھا حسبِ معمول شاہ عبدالشکور سے ملاقات ہوئی (غالباً سید شاہ علم اللہؒ ان سے رخصت ہونے کے لیے گئے ہوں گے) شاہ عبدالشکور نے آپ سے کہا کہ آؤ کچھ دیر کے لئے دریا کی سیر کرآئیں ، چلتے چلتے اس جگہ پہنچ گئے جس کو آج دائرہ شاہ علم اللہ کہتے ہیں (اور جس جگہ آپ کا مکان اور مسجد ہے) کہنے لگے کہ یہ تمھارا وطن اور اقامت گاہ ہے یہاں رہو