چشم قبول ہیں لیکن پانی بھرنا تنہا میرے لئے بہت مشکل ہے، سید شاہ علم اللہؒ نے جواب میں کہلوایا کہ اس میں میں بھی شریک رہوں گا۔
اہلیہ گھر چھوڑ کر سید شاہ علم اللہؒ کے پاس آگئیں اور گھر میں جو کچھ بھی سامان تھا اس کے لئے اعلان کردیا گیا کہ جس کو جس چیز کی ضرورت ہو لے لے۔ اہلیہ کا زیور بھی فقراء اور اہلِ حاجت کے گھرانوں میں تقسیم کردیا گیا، دل تو ’’متاعِ دنیا‘‘ سے پہلے ہی خالی تھا اب ’’در‘‘ بھی اس سے خالی ہوگیا، اس کا اطمینان کرلینے کے بعد کہ اب گھر میں کچھ نہیں ہے اہلیہ کے ساتھ اندر فروکش ہوئے،(۱)بھائی اور دوسرے رشتہ دار بہت ہمدردی کے ساتھ پیش آئے اور یہ دیکھ کر گھر بالکل خالی ہے ضروری سامان و اسباب لا کر رکھ گئے۔ سید شاہ علم اللہؒ نے جو کسی اور حال میں تھے اور ہجرت کا عزمِ محکم کرچکے تھے ، اعلان کردیا کہ جس کا جو جی چاہے سامان لے جائے، دیکھتے ہی دیکھتے ضرورت مند اور فقراء سب سامان لے گئے، چار مرتبہ بات یہی پیش آئی، وہ لوگ سامان لا کر دے گئے، اور دوسرے وقت سید شاہ علم اللہؒ نے بلا ادنی تکلف یا افسوس کے اس کو تقسیم کردیا، آخر کار سب اعزہ و اقربا مایوس ہوگئے اور یہ سمجھ گئے کہ ان کو کچھ دینا بیکار ہے، سید شاہ علم اللہؒ نے سامانِ سفر تیار کیا اور چند ہی روز کے بعد حرمین شریفین کی ہجرت کے ارادہ سے نصیر آباد سے روانہ ہوگئے، تمام بھائیوں ، عزیزوں اور دوستوں نے بادیدۂ تر رخصت کیا اور نصیر آباد اس دولت اور سعادت سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوگیا۔(۲)
------------------------------
(۱) تذکرۃ الابرار
(۲) سیرت علمیہ و تذکرۃ الابرار