’’جس زمانے میں وہ اپنے چچا زاد بھائی دیوان خواجہ احمدؒ سے پڑھ رہے تھے، گاہے گاہے دیوان خواجہ احمد کو شیخ آدم کی بیعت کی ترغیب دیتے رہتے تھے، ایک روز خواجہ احمد نے کہا کہ شیخ کو ظاہرِ علوم سے بہرہ نہیں ہے، میں ان کی بیعت پر کیوں کر راضی ہوجاؤں ؟ شاہ علم اللہؒ بولے: آپ جیسے عالم اگر شیخ کے پاس جائیں تو بات نہ کرسکیں ، امتحاناً خواجہ احمد نے شیخ کے پاس جانا منظور کر لیا اور جاتے ہی علمِ کلام کا ایک مسئلہ پوچھا، شیخ نے کہا: آپ عالم ہیں ، میں عامی ہوں ، آپ بیان فرمائیں ! اصرار پر شیخ نے اس انداز میں مسئلہ کی توضیح فرمائی کہ خود خواجہ احمد بھی اس سے زیادہ نہیں جانتے تھے، دوسرے روز تفسیر کا ایک مشکل مسئلہ پیش کردیا، شیخ نے اسے بھی بے تکلف حل کردیا، تیسرے روز بھی اسی قسم کا ایک واقعہ پیش آیا، آخر خواجہ احمد خود بیعت کے لیے درخواست پیش کردی۔‘‘(۱)
لیکن سید شاہ علم اللہؒ جانتے تھے کہ استعداد اور صلاحیت پیدا کئے بغیر بیعت و ارادت کا پورا فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا(جیسا کہ گزشتہ سطور سے معلوم ہوا ہوگا) دو سال کے سخت اور نفس دشمن مجاہدات کے بعد انھوں نے اپنے لئے بیعت کا فیصلہ کیا، ’’مہرجہاں تاب‘‘ میں ہے کہ سید آدم بنوریؒ اس وقت دہلی میں تشریف رکھتے تھے قیاس ہے کہ غالباً ۱۰۴۹ھ کا زمانہ تھا، اس وقت سید شاہ علم اللہؒ کی عمر اندازاً سولہ سال رہی ہوگی جو یقیناً بہت کم عمر ہے اور اس کمسنی میں یہ حالت خدا کی توفیقِ خاص اور ان کی علوِ استعداد کی علامت ہے۔
------------------------------
(۱) حضرت شاہ ولی اللہؒ نے بھی ‘‘انفاس العارفین’’ میں یہ واقعہ لکھا ہے، (سید احمد شہید ، غلام رسول مہر، ص: ۳۸)