جذبات و کیفیات کا اندازہ ہوتا ہے:
یا رب دلِ پاک و جانِ آگاہم دہ آہ شب و گریۂ سحر گاہی دہ
در راہِ خود اول ز خودم بیخود کن وانگہ بیخود زخود بخود را ہم دہ
یارب کوئے بے نیازم گرداں و از افسر فقر سرفرازم گرداں
در راہِ طلب محرم رازم گرداں زان رہ کہ بسوئے تست بارم گرداں
اس سے پہلے والے صفحہ پر جو علیحدہ سے لگا ہے مولانا سید عبد الحیؒ کی حسبِ ذیل عبارت درج ہے:
’’رسائل مصنفہ حضرت دیوان سیدخواجہ احمد نصیر آبادی نور اللہ مرقدہ کہ بعنایت الٰہی بایں فقیر رسیدہ، امید از اولاد سعادت مند آنست کہ ازیں چنیں رسائل فائدہ گزید، و آں را محفوظ دارید، واللہ الموفق۔
عبد الحی ۲۲؍ جمادی الاولی ۱۳۲۲ھ۔‘‘
۱۰۸۸ھ میں نصیر آباد میں انتقال ہوا اور اپنی مسجد کے صحن میں دفن ہوئے۔(۱)
سید محمد فضیل کے دو صاحبزادے تھے، سید شاہ علم اللہؒ اور سید شاہ داؤد۔ آئندہ صفحات سید شاہ علم اللہ حسنیؒ کے حالات و سوانح اور کمالات و اوصاف پر مشتمل ہیں ، اور ان میں اس ’’جمالِ یار‘‘ کی تصویر کشی کی کوشش کی گئی ہے جس کی آب تاب سیکڑوں برس گزرجانے کے بعد آج بھی اسی طرح باقی ہے، اور اس کا تذکرہ ہی مشامِ جان کو معطر کرنے کے لئے کافی ہے:
گر مصور صورتِ آں دلستاں خواہد کشید
حیرتے دارم کہ نازش را چساں خواہد کشید
------------------------------
(۱) ‘‘داخلِ جنت’’ تاریخِ وفات ہے۔