اپنی جلالتِ شان، علم و عمل اور زہد و تقوی میں وہ بہت ممتاز حیثیت کے مالک تھے، قاضی ضیاء الدین برنی نے ان کے معارف و کمالات کا ذکر اپنی کتاب میں تفصیل سے کیا ہے اور ان کی بہت تعریف کی ہے۔
اپنے عم نامدار سید تاج الدین کے بعد وہ بدایوں میں ان کی جگہ منصبِ قضا پر فائز ہوئے، ان کے متعلق ’’تذکرۃ الابرار‘‘ میں خواجہ کڑک مجذوب(۱)کا ایک عجب واقعہ منقول ہے بالکل یہی واقعہ حضرت سید شاہ علم اللہؒ حسنی کے ساتھ اپنے وقت میں پیش آیا جس کا ذکر اپنے موقع پر آئے گا۔
خواجہ مجذوب برہنہ رہتے تھے، لیکن جیسے ہی قاضی رکن الدین پر نظر پڑتی تو جو کپڑا ملتا اس کو اوڑھ لیتے اور کہتے یہی ایک مرد ہے جس سے میری نظروں کو حجاب آتا ہے، وہ جب قاضی سید رکن الدین سے ملتے تو ان سے کہتے:
’’تو سردار ہستی و اولادِ تو ہم سردار بوند و فرزندانِ تو فرزندانِ من ہستند، ہر کہ ایشاں را ایذا خواہد رسانید بحق او بہتر نخواہد بود(۲)
------------------------------
(۱) خواجہ کڑک ابدال، مجذوب اور صاحبِ دل اور صاحبِ حال بزرگ تھے، تذکرۃ السادات و ظہورِ قطبی میں ہے کہ امیر سید قطب الدین نے ان کو اپنے پوتے سید رکن الدین کے قاضی کڑا ہونے اور ان کی خدمت میں آنے کی اطلاع دی تھی، دوسری طرف قاضی سید رکن الدین سے کہا تھا کہ وہ ان کے وجود کو غنیمت جانیں اور حال و جذب کی کیفیات کے باوجود ان سے ربط قائم رکھیں ، جب ان کے انتقال کا وقت قریب ہوا تو گھر سے مسجد تشریف لائے، آنکھیں سُرخ ہورہی تھیں ، بلند آواز سے یہ آیت پڑھی:﴿إذا جاء أجلھم لا یستأخرون ساعۃ ولا یستقدمون﴾، اس کے بعد فرمایا: ‘‘امروز روزے است کہ کڑک را از شما دور می برند و جد امی سازند باید کہ محبت قدیم را فراموش نکنید۔’’ اس کے بعد سورۂ اخلاص پڑھی، چہرے پر زردی سی پھیل گئی اور یہ آیت وردِ زبان ہوگئی:﴿کل من علیہا فان، و یبقی وجہ ربک ذو الجلال و الاکرام﴾ رونا شروع کیا، حاضرین میں سے کسی نے پوچھا یہ کیا حال ہے؟ فرمایا : ‘‘نمی دانم کہ عاقبت من چہ خواہد بود’’، نصف شب گزرنے کے بعد انتقال ہوا، غسل سید رکن الدین نے دیا اور نمازِ جنازہ انھوں نے اور شیخ ضیاء الدین نے پڑھائی، قاضی سید رکن الدین سے ان کا خاص اور عجیب معاملہ تھا ، ان کے آنے سے بہت پہلے حاضرین مجلس سے کہنے لگتے:‘‘ سید آرہے ہیں ’’، یا کبھی کہتے:‘‘ مرد آر ہے ہیں ، میرے اوپر چادر ڈال دو’’۔ ان کی قبر سید قطب الدین کی قبر کے بالکل قریب ہے۔
(۲) تذکرۃ الابرار۔