قصاحب ’’عمدۃ المطالب‘‘، شیخ احمد اکبر آبادی صاحب ’’تذکرۃ السادات‘‘، سید حامد بخاری سندی اور صاحبِ ’’منبع الانساب‘‘، اور صاحبِ ’’بحر الانساب‘‘ نے اس کی توثیق کی ہے اور بعض نے لکھا ہے کہ ’’صحت نسب قطب العارفین رئیس الواصلین سید قطب الدین محمد الحسنی الحسینی از تواریخ انساب بتواتر پیوستہ۔‘‘(۱)
ہم ’’تاریخِ فیروز شاہی‘‘ سے ایک اقتباس پیش کرتے ہیں جس سے ان کے اور ان کے بعض معاصرین کے مرتبہ کا اندازہ ہوگا اور معلوم ہوگا کہ اس عہد میں ان کی کیا حیثیت تھی اور علماء و مؤرخین ان کو کس نظر سے دیکھتے تھے:
’’منکہ مؤلفِ تاریخِ فیروزشاہیم از ثقات معمر شنیدہ ام در عصر بلبن چند بزرگ از بقایا بزرگان شمسی ماندہ بود و چند ملک از نوادرِ ملوک و اعوان و انصار او پیدا آمدہ کہ عہدعصر سلطان بلبن ازاں بزرگاں و ازاں ملوک آراستہ شدہ بود و اعتبار تمام گرفتہ۔‘‘
(خاکسار مؤلف تاریخ فیروزشاہی نے معتبر و معمر بزرگوں سے سنا ہے کہ سلطان غیاث الدین بلبن کے عہد میں چند ہستیاں جو شمس الدین التمش کے مبارک عہد کی یادگار تھیں ، باقی رہ گئی تھیں ۔ اور اس دور کے چند ملوک و امراء و اعوان سلطنت بھی موجود تھے، یہ بزرگ ہستیاں اور یہ ملوک و امراء سلطان بلبن کے عہد کے لئے باعثِ زینت اور باعثِ فخر تھے۔)
’’چنانکہ از سادات بزرگ تر بزرگاں امت اند، قطب الدین شیخ الاسلام شہرجد بزرگوار قاضیاں بداؤں و سید منتخب الدین و سید جلال الدین پسر سید مبارک و سید عزیز الدین و سید معین الدین سامانہ و سادات گردیز جدان سید چھجو و سادات عظام کیتھل و
------------------------------
(۱) سیرت سید احمد شہید ؛ از مولانا سید ابو الحسن علی ندوی؛ بحوالہ تذکرۃ السادات۔