ان کو علامہ لکھا ہے، لیکن یہ وہ علم نہیں ہے جس کو ’’حجابِ اکبر‘‘ کہا گیا ہے، اس فضیلت علمی، تصنیف و تالیف اور تحقیق و مطالعہ کے ساتھ ان کو وہ دولت بھی حاصل تھی جو علم کی جان ہے، اور جس کے بغیر ساری ذہنی کاوشیں اور تحقیقات علمی نہ صرف بے قیمت اور بے حاصل بلکہ وبالِ جان ہیں ، سید محمد حکم کو کمالِ علمی کے ساتھ فقر و استغنا اور تعلق مع اللہ سے بھی حصۂ وافر ملا تھا اور علم نافع او ر روحانیت صادقہ کا وہ حسین امتزاج ان کو حاصل تھا جو ہمیشہ کمیاب رہا ہے۔
انھوں نے طویل عرصہ تک اپنے والد کی صحبت اٹھائی اور ان ہی کی تربیت و رہنمائی اور شفقت و محبت کے سایہ میں اصلاحِ نفس کے ان تمام مراحل سے گزرے جو سالک کو پیش آتے ہیں اور جن سے گزرنا عین اسلام و ایمان کا تقاضا اور اس راہ کا طبعی خاصہ ہے۔
مولانا سید نعمان کہتے ہیں کہ ابتدائے حال میں ان کو علوم منقولات کی طرف زیادہ توجہ تھی ، اس میں کمال حاصل کرنے کے بعد اصلاحِ حال کی فکر دامن گیر ہوئی، نظر اٹھا کر دیکھا تو یہ دولت گھر میں پائی، چنانچہ اپنے والد کی صحبت و تربیت میں رہ کر سید شاہ علم اللہؒ اور دوسرے مشائخ کی نسبت خاصہ سے بہرہ ور ہوئے اور سلوک کے اعلی ترین مقامات تک پہنچے، اپنے والد سے باقاعدہ اجازت لے کر ہندوستان کے دوسرے مشائخ سے استفادہ باطنی کے لئے مختلف مقامات کا سفر بھی کیا، چنانچہ سرہند میں شیخ عبد الاحد بن شیخ محمد سعید سر ہندی سے استفادہ کیا اور ’’شام چوراس‘‘ میں نامور شیخ وقت شیخ عبد النبی شام چوراسی کی خدمت میں تقریباً ایک سال رہ کر فیوض حاصل کئے اور ان کے سلسلہ کی نسبت باطنی سے بہرہ ور ہوئے، اس کے علاوہ شیخ محمد یحییٰ اتکی، شیخ سعدی بلخاری کی صحبت بھی اٹھائی، رائے بریلی سے پشاور تک اکثر مشائخ وقت اور اپنے سلسلہ کے کبار خلفاء سے بھی استفادہ کیا اور مختلف فیوض و اثرات