فائز اور کامران ہوئے اور مقصدِ اعلی تک پہنچے۔
مولانا نعمان لکھتے ہیں کہ: ’’اس فقیر نے ان کے بہت سے ایسے مریدوں کو دیکھا ہے جو مقصود اصلی تک پہنچ چکے تھے اور ان کو نسبت خاصہ، فراست صادقہ اور قوت کشف و ادراک بھی حاصل تھی۔‘‘
سید محمد صابر، اخلاق و مروت اور ایثار و سخاوت میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے، جو کوئی بھی ملنے آتا اس کو کچھ دئے بغیر کبھی رخصت نہ ہونے دیتے۔ ایک مرتبہ ایک وارد خانقاہ جو کئی روز سے رخصت ہونا چاہتے تھے اور سید محمد صابر اس وجہ سے ان کو روک لیتے تھے کہ کہیں سے کوئی چیز تحفہ میں آئے تو ان کو عنایت فرمائیں ۔ یہ جانے پر زیادہ مصر ہوئے، جمعہ کا دن تھا، سید محمد صابر ایک نئی اور نفیس دستار سر پر باندھے ہوئے تھے، نمازِ جمعہ کے بعد وہی دستار انھوں نے سر سے اُتار کر ان صاحب کو عنایت فرمادی اور کہا کہ بھائی اس کو قبول کرلواور فروخت کر کے اپنے کام میں لاؤ۔ جو شخص ملاقات کو آتا اس کے سامنے کچھ لا کر ضرور رکھتے۔
مولانا سید محمد نعمان ان کی وجاہت ظاہری، قوت روحانی اور ان کے کمال و جمال کا عقیدت و محبت کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :’’ان کی طرف دیکھنا سرمایۂ سرور، ان کی صحبت وسیلۂ حضور تھی، درویشانِ عالی مقام کی وجاہت ان کے جمالِ با کمال سے نمایاں اور اولیاء کرام کا نور ولایت ان کی پیشانی سے عیاں تھا، جو ان کو دیکھتا جنیدؒ و شبلیؒ سے تشبیہ دیتا، اکثر میں نے ان کو عید کی نماز میں حضرت سید شاہ علم اللہؒ کا عمامہ اور قمیص پہنے ہوئے دیکھا اور کمالِ شوق و ذوق سے دل میں رقت و گداز کی عجیب کیفیت پیدا ہوئی۔
اس نسبت روحانی، قوت ادراک اور سماع و بدعات سے نفرت کا اندازہ ذیل کے اس واقعہ سے ہوگا: