والد کے اصحاب اور سالکین راہ کے ساتھ ارشاد و ہدایت اور خدمت خلق میں مشغول ہوگئے ، تھوڑے ہی عرصہ میں قبولِ عام اور رجوعِ تام حاصل ہوا، اور یہ جگہ ایک ایسا مرکز اصلاح بن گئی جہاں ان کے والد ماجد سے تعلق رکھنے والے تمام اشخاص اور دوسرے طالبانِ حق جوق در جوق آتے اور اپنی پیاس بُجھاتے، نہ جانے اللہ کے کتنے خوش قسمت بندے ان کے انفاس متبرکہ کی برکت اور فیض صحبت سے قیدِ خود پرستی سے آزاد اور قرب و وصال کی دولت سے مالا مال ہوئے۔
ارشاد و ہدایت کا یہ شہرہ اتنا بڑھا کہ ایک روز ناظم صوبہ الہ آباد (جو ہندو تھا) رائے بریلی وارد ہوا اور سید محمد جیؒ کی زیارت و شرف ملاقات کے لئے قلعہ کے اندر خانقاہ میں پہنچا، سید محمد جیؒ اس وقت مکان میں تشریف لے جا چکے تھے، ناظم نے حاضری کی اطلاع دی اور آرزوئے ملاقات ظاہر کی، انھوں نے فرمایا کہ اگر جامع مسجد میں فقیر کی موجودگی کے وقت تشریف لے آتے تو ملاقات و مصافحہ سے کچھ عذر نہ تھا، امر بالمعروف اور دعوتِ اسلام کے بعد اپنے حق سے بری الذمہ ہوجاتا، لیکن اب تمنائے اسلام کے بغیر حجرہ سے باہر آنا اور آپ سے ملاقات کرنا میرے لئے مشکل ہے، اگر اسلام قبول کرنے کا ارادہ ہو تو شوق سے تشریف رکھیں ، ملاقات کروں گا اور اپنا بھائی سمجھوں گا، ورنہ واپس تشریف لے جائیں ، یوں یہ فقیر اللہ کے تمام بندوں کے لئے دعا گو ہے، اس نے یہ سن کر پیغام رساں سے کہا کہ وہ تو اپنے حقوق سے عہدہ بر آ ہوگئے اور میں اپنی بے نصیبی کی وجہ سے دولتِ دیدار سے محروم رہا، اور اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ اس زمانہ میں ایسا شیخ اور سید دیکھنے میں نہیں آیا، عام طور پر تو مشائخ امیروں اور ناظموں کی آمد کی تمنا میں رہتے ہیں ، اس کے لئے مختلف حیلے اور ترکیبیں کرتے ہیں کہ امراء و اغنیاء ان کے آستانہ پر حاضر ہوں اور اس مقصد کے حصول کو معراج دنیاوی سے کم نہیں سمجھتے، لیکن اس سید عالی ہمت کی شان ہی دوسری ہے۔