سے ارشاد فرمادیتے اور میں اس کو قلمبند کرلیتا، اس وجہ سے میں ہمیشہ سایہ کی طرح ان کے ساتھ رہا، آخری ایام میں خلق سے بالکل کنارہ کش ہوگئے تھے، اگر کوئی زیارت کے لئے آتا تو امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر مشتمل ایک لکھا ہوامضمون مجھے عنایت فرماتے کہ پہلے یہ ان کو جا کر سناؤ، پھر اگر ضرورت ہوتی تو میرے مشورہ کے بعد ملاقات کے لئے باہر تشریف لاتے، ہر چھوٹے بڑے معاملہ میں کمال شفقت کے ساتھ مجھ سے ضرور مشورہ فرماتے۔(۱)
اپنا عمامہ، قمیص، شیخ الاسلام سید آدم بنوریؒ کی ایک ٹوپی اور حضرت مجدد الفِ ثانیؒ کی دستار مبارک، اپنا قرآن مجید جس میں خود تلاوت فرماتے تھے، اور اس طرح کے سارے تبرکات سید شاہ علم اللہؒ نے سید محمد جیؒ کو عطا فرمائے، اس سے بڑھ کر یہ کہ اس کے ساتھ اپنی وہ اصل دولت بھی عطا فرمادی جس کی وجہ سے یہ تبرکات، تبرکات سمجھے جاتے ہیں ۔
سید شاہ علم اللہ کے انتقال کے وقت سید محمد جی کی عمر ۲۶؍ سال تھی، ایسے مشفق و مہربان باپ اور ایسے مرشد و مربی کا سایہ عین جوانی میں سر سے اٹھ جانا بہت بڑا حادثہ تھا، اس کا اثر ان کے دل پر قدرتی طور پر بہت پڑا، اور وہ زمانہ بڑے مصائب اور تکلیفوں میں گزرا، چنانچہ رفعِ کدورت کے لئے وطن کو خیرباد کہہ کر سیر و سیاحت کے لئے نکل گئے اور دو سال کے بعد وطن واپس تشریف لائے اور اس دو سال کی مدت میں مختلف مشائخ بالخصوص حضرت مجدد الفِ ثانیؒ شیخ احمد بن عبد الاحد سرہندی کے خلفاء سے پورا فائدہ اٹھایا اور فیض حاصل کیا۔
آبائی مکان پر قیام کرنے کے بجائے اس سے ایک میل شرعی کے فاصلہ مشرقی جانب اندورنِ قلعہ قیام فرمایا اور وہاں ایک نیا مکان اور نئی مسجد تعمیر کی اور اپنے
------------------------------
(۱) اعلام الہدی، سیرت علمیہ، و دیگر مصادر۔