نہیں ، دولت باطنی اپنے والد سے حاصل کی اور فیض و ارشاد کا سلسلہ برابر جاری رہا، ابتدا ہی میں جہاد و غزا کا شوق دامن گیر ہوا اور اس مقصد سے اپنے براداران اور اقرباء کی ایک مختصر جماعت کے ساتھ ناظم گورکھپور کی سرکار کے سپاہیوں میں شامل ہوگئے۔
اسی زمانہ میں اس نواح کے راجہ نے بغاوت کردی اور جمعہ کا دن مقابلہ کے لئے طے ہوا، اور ناظم مقابلہ کے ارادہ سے باہر آیا، شاہ آیت اللہؒ نے ان سے فرمایا کہ آج جمعہ کا روز ہے، پہلے نماز ادا کریں اس کے بعد مقابلہ کے لئے آئیں ، ناظم نے جواب دیا کہ جب تک میں جمعہ کی نماز پڑھوں گا اس وقت تک دشمن اپنا کام نکال لیں گے، میں دیر نہیں کرسکتا۔ آپ پیر زادہ ہیں ، آپ نماز پڑھیں اور توجہ کریں کہ فتح نصیب ہو، یہ جواب سُن کر وہ نماز میں مشغول ہوگئے، امیر نے جنگ شروع کی اور سخت ہزیمت اٹھائی، شاہ آیت اللہؒ نماز پڑھ کر گھوڑے پر سوار ہوئے اور میدانِ کارزار کی طرف چلے ، جب شہر کے دروازے تک پہنچے تو دیکھا کہ سرکاری فوج ناظم کی سرکردگی میں پسپا ہو کر واپس آرہی ہے، انھوں نے یہ منظر دیکھ کر فوج کو دوبارہ حملہ کرنے پر اُبھارنا چاہا اور طرح طرح سے ہمت دلائی لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا، فوج کے ایک آدمی نے کہا کہ کسی پر آسمان پھٹ پڑے تو کیسے برداشت کرسکتا ہے، آپ اتنی مختصر جماعت کے ساتھ کیا کرلیں گے، بہتر یہ ہے کہ آپ واپس لوٹ جائیں ، ان سے نا امید ہو کر انھوں نے بہ نفسِ نفیس علم نصرت بلند کیا اور آگے بڑھ کر باغیوں پر حملہ آور ہوئے اور نہ جانے کتنے سر قلم کئے اور راجہ اور باغی فوج کے متعدد افسران اس معرکہ میں مقتول ہوئے، اس معرکہ میں ان کے دو حقیقی بھائی اور سید شاہ علم اللہؒ کے داماد سید محمد رحیم بھی شریک تھے، سید محمد رحیم نے جامِ شہادت نوش کیا، اور باقی سب لوگ مظفر و منصور واپس ہوئے۔(۱)
------------------------------
(۱) اعلام الہدی و تذکرۃ الابرار۔