ہاتھ جھاڑ کر جنگل کی طرف نکل پڑا اور اسی جذب و بے خودی کے عالم میں دشت نوردی کرتے کرتے ’دہامونی‘اور ’کالنجر‘ تک پہنچ گیا، رات کو کسی پہاڑ کے غار میں چھپ جاتا اور دن کو پھر وہی بادیہ پیمائی اور صحرا نوردی شروع کردیتا، بعض لوگ میری اس وارفتگی و دل باختگی کو دیکھ کر از راہِ ترحم کچھ کھانے پینے کو پیش کرتے، کبھی میں اس کو قبول کرلیتا اور کبھی واپس کردیتا۔
ایک دن میں پہاڑی کے دامن میں سورہا تھا کہ خواب میں مجھے حضرت (سید شاہ علم اللہؒ) کی زیارت نصیب ہوئی، مجھ سے فرمایاکہ (فتح محمدبیا نصیبۂ تو اینجا مقرر است و کشائش کار تو مقدر) ’’فتح محمد یہاں آؤ! تمھارا حصہ تو یہاں مقرر اور کشایش کار یہاں مقدر ہے‘‘۔ لیکن افسوس کہ اپنا نام و نشان کچھ نہ بتایا، عجب بے قراری و شوریدہ سری کے عالم میں ‘ میں نے ان کو تلاش کرنا شروع کیا اور کوئی قصبہ اور شہر باقی نہ چھوڑا، جہاں کہیں کسی بزرگ، شیخ اور عالم کا تذکرہ سنتا ان کی زیارت کو پہنچتا کہ شاید یہ وہی چہرہ ہو جس کے دیدا ر سے میں خواب میں مشرف ہوا تھا، جب ان کو دیکھتا تو مایوسی اور حسرت کے سوا کچھ ہاتھ نہ لگتا۔ اور یہ شورش و سوزش کچھ اور بڑھ جاتی، غرض اسی حال میں افتاں و خیزاں فتحپور پہنچا اور وہاں حضرت کا نام مبارک سُن کر رائے بریلی روانہ ہوا، اور خانقاہ میں حاضر ہوا، اہلِ خانقاہ نے میری غیر شرعی وضع قطع یعنی بڑھے ہوئے بالوں ، رنگین کپڑوں اور گردن میں مالا دیکھ کر سخت ناراضی کا اظہار کیا اور کہا : اے بے ادب اور