توتزکیۂ نفوس بعثت کے بنیادی مقاصد میں سے ہے،اور ان بڑے مظاہرمیں سے ہے کہ جن میں معجزۂ نبوی، شریعت اسلامی اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاظہور ہوا،اور یہ مسئلہ اخلاق کی تہذیب ،فضائل سے آراستہ ہونے اوررذائل سے پاک ہونے کا ہے کہ وہ مسلمان جو اس نبوی مدرسہ وتربیت گاہ سے تربیت یافتہ ہیں ،اخلاق کی بلندی اور انسانی اقدار میں کامل نمونہ ہوں ،اور یہ سب کچھ نورنبوت اور تعلیمات نبوی کا فیضان ہو،وہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کی عملی تفسیرہوں کہ:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُوْلِ اللّٰہِ أسْوَۃٌحَسَنَۃٌ لِمَنْ کَانَ یَرْجُواللّٰہَ وَالْیَوْمَ الآخِرَوَذَکَرَاللّٰہَ کَثِیْراً۔(سورۂ احزاب:۲۱)
(اور تم کوپیغمبرِ خدا (صلی اللہ علیہ وسلم)کی پیروی (کرنی) بہتر ہے، (یعنی) اس شخص کو جسے خدا(سے ملنے) اور روز قیامت (کے آنے ) کی امید ہو،اور وہ خداکاذکرکثرت سے کرتاہو۔)
اللہ تعالیٰ نے لفظ حکمت کو متعدد جگہوں پران ہی اخلاق وآدابِ نبوی کے لئے استعمال فرمایاہے،اس مسئلہ (تہذیبِ اخلاق وتزکیۂ نفوس ) کی اہمیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارکہ سے بھی ظاہرہوتی ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
إنمابعثت لاتمم مکارم الأخلاق۔(بلاغات امام مالک)
(میں اس لئے مبعوث کیا گیا ہوں کہ مکارم اخلاق کی تکمیل کردوں ۔)
تویہ اس کی بہترین مثال اور افضل ترین نمونہ ہے ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّکَ لَعَلٰی خُلْقٍ عَظِیْم۔(سورۂ قلم)
(بلاشبہ آپ توبلند اخلاق پر ہیں ۔)
توخاص طور سے کتب حدیث ودواوین سنت سے استفادہ کرتے وقت تزکیۂ