میرے احساسات بالکل وہی ہیں جو آپ کے ہیں ، اور صرف احساسات نہیں بلکہ ہمارے بزرگوں نے تو وہ جھنڈا بلند کیا جس کی وجہ سے ہم کو نئے نئے لقب ملے، اور سخت مشکلات اور مخالفتوں کا سامنے کرنا پڑا ،لیکن اگر زمین ہی پاؤں کے نیچے سے نکل گئی تو پھر یہ عمارتیں کس پر قائم ہوں گی؟
ہمارے بزرگوں نے ملک میں دین بچانے کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں ، اور ضرورت پڑی ہے تو اپنی غلطی تسلیم کر لی ہے، اور دب گئے ہیں ، جھک گئے ہیں ، اور نیچے اتر آئیں ہیں ، انہوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ بھائی آپ ہی اوپر بیٹھئے، مگر دین باقی رہ جائے، ہمارے بزرگوں ، حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ کے مسلک اور ان کے مکتبِ فکر کے لوگوں کی ہندوستان میں یہی روایت رہی ہے، آپ درس کے حلقوں اور علمی مجلسوں میں اختلافی مسائل پر آزادی کے ساتھ گفتگو کیجئے، ان مسائل پر کتابیں لکھئے، مگر ملک کو داؤپر نہ لگائیے،جب کوئی ایسا محاذ قائم کیا جاتا ہے اور اس طرح کی دعوت دی جاتی ہے جس میں احساس برتری یا اظہار برتری ہوتا ہے تو اس کے مقابل دوسرا محاذ بن جاتا ہے، اور وہاں سے صدائے ’’ہم چوں من دیگرے نیست‘‘بلند ہونے لگتی ہے، ہمارے بزرگوں کا سارا کام تواضع کے ساتھ تھا، اتہام نفس کے ساتھ تھا، ایمان واحتساب کے ساتھ تھا، نہ ان کو سیادت وقیادت کا دعویٰ تھا، اور نہ یہ کہ ہماری جماعت ہی نے سب کچھ کیا، اور ہم ہی سب کچھ ہیں …
یہ شاہ ولی اللہ دہلویؒ ہی تھے اور ان کا درد تھا ، اور ان کی بصیرت تھی جس نے ہندوستان کا نقشہ بدل دیا، آپ انہیں کی طرف اپنی نسبت کرتے ہیں ، اس نسبت کا تقاضہ ہے کہ ملت اور دین کے لئے جس ایثار وقربانی کی ضرورت ہے وہ پیش کیجئے، اور صاف کہیئے کہ اچھابھائی تم ہی سہی، تمہارا ہی کارنامہ سب سے بڑا ہے، ہم سب مل کر اس