آجائے گی۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۳۱، خزائن ج۱۱ ص۳۱ حاشیہ، نکاح مرزا ص۴) بہت کچھ مرزاقادیانی نے منگنی توڑانے کی کوشش کی۔ کامیاب نہ ہوا۔ آخر مرزااحمد بیگ نے اپنی بیٹی محمدی بیگم کا نکاح سلطان محمد سے ۱۸۹۲ء میں دھوم دھام سے کیا تو مرزاقادیانی کے ہوش اڑ گئے تو مرزاقادیانی نے اپنے رقیب سلطان محمد کی موت کی دوسری پیشین گوئی کی کہ: ’’اس (محمدی بیگم) کا شوہر میری زندگی میں ضرور مرے گا اور اس کی بیوی (یعنی محمدی بیگم) میرے نکاح میں بالیقین آئے گی۔ اگر یہ پیشین گوئی پوری نہ ہوئی یعنی منکوحہ آسمانی کا شوہر میرے سامنے نہ مرا تو میں بد سے بدتر ٹھہروں گا۔ اے احمقو! یہ انسان کا افتراء نہیں یقینا سمجھو کہ یہ خدا کا سچا وعدہ ہے۔ وہی خدا جس کی باتیں ٹلتی نہیں۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۴ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۳۳۸)
جدا ہوں یار سے ہم اور نہ ہوں رقیب جدا
ہے اپنا اپنا مقدر جدا نصیب جدا
غلط پیشین گوئی
مرزاقادیانی کی یہ پیشین گوئی غلط ٹھہری۔ سلطان محمد نہیں مرا۔ مرزاقادیانی کی بقیہ سولہ سالہ زندگی تک مرزاقادیانی کی موجودگی میں محمدی بیگم کے ساتھ دادعیش دیتا رہا اور جنگ عظیم میں شریک رہا۔ بمقام فرانس گولی لگی۔ تندرست ہوگئے اور جولائی ۱۹۲۱ء تک زندہ رہا اور مرزاغلام احمد قادیانی ۱۹۰۸ء میں بحسرت ویاس ہیضہ کے مرض میں اس دارفانی سے کوچ کر گیا ؎
نکاح آسمانی ہو مگر بیوی نہ ہاتھ آئے
رہے گی حسرت دیدار تا روز جزا باقی
محمدی بیگم کے نکاح کرنے میں ناکامی کے بعد مرزاغلام احمدقادیانی ہر شخص سے بھڑنے لگا۔ مباہلہ کے چیلنج کے ساتھ جھوٹی پیشین گوئی کی بھرمار شروع کر دی۔
مولوی عبدالحق سے مباہلہ
جون ۱۸۹۱ء مطابق ۸؍ذیقعدہ ۱۳۱۰ھ جب کہ مرزاقادیانی کی عمر تخمیناً ۵۱سال کی ہوئی تو حسب قرارداد مولوی عبدالحق صاحب غزنوی مقیم امرتسر سے مباہلہ کرنے کی غرض سے امرتسر کے عیدگاہ میں اپنے حامیوں کے ساتھ دن کے دو بجے حاضر ہوئے۔ حاضرین کے سامنے مولوی عبدالحق غزنوی نے روبقبلہ ہوکر تین بار بہ آواز بلند کہا۔
یا اﷲ میں مرزا کو ضال (گمراہ) مضل (گمراہ کرنے والا) ملحد (بددین) دجال (حد سے زیادہ دغاباز) کذاب (حد سے زیادہ جھوٹا) مفتری (بہتان لگانے والا) محرف (ردوبدل