ضرورت ہوتی تھی کہ ایسا نبی بھیجا جائے جس کو یا تو نئی شریعت دی جائے یا پہلی شریعت کی تحریفات کی اس کے ذریعہ اصلاح کی جائے۔ ’’یحرفون الکلم عن مواضعہ‘‘
سوم… آپؐ سے پہلے کوئی نبی دین کامل لے کر نہیں آیا تھا۔ اس لئے ضرورت تھی کہ ایک نبی کے بعد دوسرا نبی بھیجا جائے اور شریعت اترے۔ چونکہ حضرت محمد رسول اﷲﷺ کو ان تینوں باتوں سے قرآن کے ذریعہ مطمئن کر دیا گیا تھا۔ مثلاً:
۱…
’’کافۃ للناس بشیرا ونذیرا (سبا:۲۸)‘‘ آپؐ تمام مخلوق کے لئے نبی بناکر بھیجے گئے۔
۲…
آپؐ کی شریعت کو تحریف وغیرہ سے محفوظ رکھنے کی ذمہ داری لیتے ہوئے فرمایا۔ ’’انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون (الحجر:۹)‘‘
۳…
آپؐ کے دین کو کامل ومکمل کر دینے کے متعلق فرمایا۔ ’’الیوم اکملت لکم دینکم (المائدہ:۳)‘‘
آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا۔ اس لئے آپؐ کے بعد کسی نبی کے آنے کی ضرورت نہیں رہی۔ اسی لئے حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ نے سوالاکھ صحابہؓ کے سامنے ببانگ دہل اعلان کیا۔
میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور نہ تمہارے بعد کوئی امت ہوگی۔ اس لئے اﷲ کی عبادت کرو۔ چونکہ قرآن ببانگ دہل اعلان کر رہا ہے کہ حضورﷺ کے سوا ہر نبی سے ’’یوم الست‘‘ میں وعدہ لیاگیا کہ جب ان کے زمانہ میںیا ان کی امت کے زمانہ میں ’’نبی عربی‘‘ آئے۔ جس کی نشانی یہ ہوگی کہ وہ انبیائے سابقین کی تصدیق کریں گے تو ان کی مدد کرنی ہوگی۔ اس پر ان سے اقرار لیا گواہ بنایا۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے۔ ’’واذ اخذ اﷲ میثاق النبیین لما آتیتکم من کتاب وحکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ ولتنصرنہ قال ء اقررتم واخذتم علی ذالکم اصری قالو اقررنا قال فاشہدوا وانا معکم من الشاہدین (آل عمران:۸۱)‘‘ {جب خدا نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور دانائی عطاء کروں پھر تمہارے پاس (ایک رسول محمد رسول اﷲﷺ) جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرے تو تمہیں ضرور اس (محمد رسول اﷲﷺ) پر ایمان لانا ہوگا۔ ضرور اس کی مدد کرنی ہوگی۔ عہد لینے کے بعد پوچھا کہ بھلا تم نے اقرار کیا اور اس اقرار پر میرا ذمہ لیا۔ (یعنی مجھے ضامن