مرزاقادیانی کی شکل میں نئی چال
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی درحقیقت مذکورہ جہاد حریت کی ہی کڑی ہے۔ جس میں بلاتفریق مذہب وملت ہندو اور مسلمانوں نے متفقہ طور پر بہادر شاہ ظفر کو اس جنگ آزادی کا قائد بنا کر انگریزوں کے ناپاک قدم سے ہندوستان کی زمین کو پاک کرنے کے لئے اپنا خون پانی کی طرح بہایا۔ مگر جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور بہادر شاہ کو تاج وتخت کے بدلے اسیری اور شکست نصیب ہوئی اور کوہ نور ملکہ وکٹوریہ کی تاج کی زینت بن کر افق عالم پر جگمگانے لگا اور ہندوستانیوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے گئے۔ انہیں بے دریغ قتل کرنا شروع کر دیا۔ مگر وہ جذبہ حریت جسے حضرت سید احمد شہید اور مولانا اسماعیل شہید نے ان کے دلوں میں پیدا کر دیا تھا اسے ختم کرنے کے لئے انگریزوں نے مرزاغلام احمد قادیانی پر نظر عنایت ڈالنی شروع کر دی تاکہ ان کے ذریعہ سے وہ بیدار اور کٹر مسلمانوں کو ایسی شراب پلائے جو ان کے اعصاب اور دل ودماغ کو اس قدر ماؤف کر دے کہ صدیوں انہیں کسی بات کا ہوش نہ رہے۔ اسی سیاسی مقصد کے تحت مرزاقادیانی کا انتخاب عمل میں لایا گیا اور مرزاقادیانی مبلغ اسلام کا چغہ پہن کر مسلمانوں میں نمودار ہوئے۔ کیونکہ تبلیغ اسلام بہت ہی ضروری اور اہم چیز تھی۔ اس لئے اچھے اچھے پڑھے لکھے لوگ مرزاقادیانی کے ساتھ ہوگئے اور مرزاقادیانی اپنی تحریر اور تقریر سے لوگوں پر اثر ڈالنے لگے اور مغالطہ دیتے رہے اور جب علماء دین نے مرزاقادیانی کی گوشمالی کی تو فوراً معذرت پیش کر دی۔ مرزاقادیانی کو انگریزوں نے جس مقصد کے لئے انتخاب کیا تھا۔ انہیں اس مشن کو پورا کرنا تھا۔ اس لئے ہوتے ہوتے آخر میں مسلمانان ہند کی طبیعت کے رجحان کو ختم نبوت کے مسئلے کی جانب پھیر دیا۔ جس کا سلسلہ ان کے مرنے کے بعد آج بھی جاری ہے۔
قادیانی ہتھکنڈے
مرزائی قرآن پاک سے اپنے مقصد اور مطلب کے مطابق آیتیں پیش کر کے اور اس کی من مانی غلط تفسیر اور معنی بیان کر کے مسلمانوں کے ایمان اور اعتقاد پر ڈاکہ ڈالتے چلے جارہے ہیں اور وہ لوگ جو عربی سے قطعی نابلد ہوتے ہیں اور وہ لوگ جو عربی دان ہیں ان کو بھی اسی تفسیر اور معنی کے آڑ میں چکمہ اور فریب دے کر اپنے دام میں پھانس لیتے ہیں اور انہیں اپنے حلقے میں شامل کر کے ان کی عاقبت اور ایمان خراب کر دیتے ہیں۔ یعنی مرزاقادیانی کی نبوت کا ان سے اقرار کروا کر حضورﷺ کے خلاف کھلی بغاوت کرتے ہیں اور اپنی اس قصر نبوت کا دروازہ کھلا رکھنا چاہتے ہیں۔ جس کی بنیاد انگریزوں کے ہاتھوں رکھی گئی تھی۔ اس فتنہ عظیم کا سدباب ہر مسلمان کا