واقعی خدا کی طرف سے وحی ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ اس کی تبلیغ نہ کرتے۔ لیکن یہاں تو صرف ایک ہی دھمکی میں سب کچھ چھوڑ دیا اور اقرار کر لیا کہ آئندہ میں ان الہاموں کو بیان کروں گا ۔جن میں کسی کی موت وغیرہ کی پیش گوئی نہ ہو۔ چنانچہ ملاحظہ ہو فرماتے ہیں کہ: ’’میں مرزا غلام احمد قادیانی۱؎ بحضور خداوند تعالیٰ باقرار صالح اقرار کرتا ہوں کہ آئندہ میں ایسی پیش گوئی شائع کرنے سے پرہیز کروںگا۔ جس کے یہ معنی ہوں یا ایسے معنی خیال کئے جاسکیں کہ کسی شخص کو ذلت پہنچے گی یا وہ موروعتاب الٰہی ہوگا۔ میں کسی چیز کو الہام بتا کر شائع کرنے سے مجتنب رہوں گا۔ جس کا یہ منشاء ہو یا جو ایسا منشاء رکھنے کی معقول وجہ رکھتا ہو کہ فلاں شخص ذلت اٹھائے گا یا موردعتاب الٰہی ہوگا۔‘‘
العبد گواہ شد
مرزاغلام احمد بقلم خود خواجہ کمال الدین بی اے ایل ایل بی
دستخط: جے ایم ڈوئی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ۲۴؍فروری ۱۸۹۹ء
(تریاق القلوب ص۱۳۰، خزائن ج۱۵ ص۴۳۳)
۲… ’’اور عذاب پیش گوئیوں میں جس طریق کو ہم نے اختیار کیا ہے۔ یعنی رضا مندی لینے کے بعد پیش گوئی کرنا اس طریق پر عدالت اور قانون کا کوئی اعتراض نہیں۔‘‘
(کتاب البریہ ص۱۰حاشیہ، خزائن ج۱۳ ص۱۰)
اب ناظرین غور فرمائیں کہ گورنمنٹ کے خوف سے حالت یہ ہورہی ہے کہ دل لرزاں ہے۔ حلق خشک ہے۔ چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں اور یہاں تک کہ پیش گوئیاں بھی ترک کر دیں۔ آخر یہ کیا راز ہے۔ عاقل را اشارہ کافی ست۔ یہ تو انگریزی گورنمنٹ کے ساتھ معاملہ ہے۔ لیکن خدا پر افتراء کرنا۔ انبیاء کی توہین کرنا آپ کے داہنے ہاتھ کا ادنیٰ کرشمہ ہے۔ چنانچہ آپ کی پاکیزہ اور مہذب تحریریں جو انبیاء علیہم السلام کی شان میں وارد ہیں۔ ملاحظہ ہو۔ فرماتے ہیں کہ (نصیحت) ’’بعض جاہل مسلمان کسی عیسائی کی بدزبانی کے مقابل پر جو آنحضرتﷺ کی شان میں کرتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت کچھ سخت الفاظ کہہ دیتے ہیں۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۱۰ ص۱۰۲، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۶۳)
’’اگر ایک مسلمان عیسائی عقیدہ پر اعتراض کرے تو اس کو چاہئے کہ اعتراض میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عظمت اور شان کا پاس رکھے۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۸، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۷۱)
۱؎ یہاں سے معلوم ہوا کہ مرزاقادیانی برٹش امپائر کے فرستادہ تھے نہ کہ خدائے تعالیٰ کے۔