اسی معنی کے اظہار کے لئے توفیتنی کہا گیا۔ جس سے بطور عموم مجاز کے پہلی مرتبہ کا آسمان پر مع جسد اٹھ جانا اور قریب قیامت کے نزول کے بعد پھر موت طبعی سے مرجانا دونوں مراد ہیں۔ تفسیر بالا میں اسی نکتہ کی طرف اشارہ بھی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو امتنی (یعنی جب آپ نے مجھے موت دے دی) یا رفعتنی (یعنی جب آپ نے مجھے زندہ آسمان پر اٹھا لیا) ان دونوں میں سے کوئی ایک لفظ ہوتا اور اگر مرزاقادیانی اپنے اصرار علی الباطل کی وجہ سے اسے نہ مانیں تو ہمیں مضر نہیں۔ کیونکہ مرزاقادیانی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوگی اور اس دعویٰ کی دلیل میں یہ آیت پیش کی ہے۔ چونکہ ہم نے مرزاقادیانی کی دلیل میں ایسا احتمال پیدا کر دیا۔ جس سے مرزاقادیانی کا مدعا ثابت نہیں ہوتا۔ اس لئے انہیں اب کوئی اور دلیل پیش کرنا چاہئے۔ جس کے متعلق میں پیشین گوئی کرتا ہوں کہ وہ قیامت تک نہیں پیش کرسکتے۔ عوام الناس کے سمجھنے کے لئے میں ایک مثال بھی دیتا ہوں۔ مثال عدالت میں کسی شخص کے گواہ پیش ہوں۔ تو فریق ثانی کے وکیل کو ان پر جرح کا حق حاصل ہوتا ہے۔ اگر وکیل نے جرح کر کے فریق اوّل کے گواہوں کو بیکار کر دیا یا ان سے وہ کہلوالیا۔ جو فریق ثانی کے موافق یا فریق اوّل کے مخالف ہے تو اب وہ گواہ بیکار ہوگئے۔ اب فریق اوّل کو چاہئے کہ کوئی اور گواہ پیش کرے۔ ورنہ مقدمہ میں ناکام ہونا پڑے گا۔ ایسا ہی یہاں بھی ہے کہ مرزاقادیانی کو لے دے کے ایک آیت تحریف کے لئے ملی تھی۔ مگر وہ بھی منصفانہ نظر سے ان کا مدعانہ ثابت کر سکی۔ فقط والسلام!
وصیت
اب آخر میں میں اہل اسلام کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ وہ اسے غور سے ملاحظہ فرمائیں اور مرزاقادیانی کی حالت معلوم کر کے ہمیشہ کے لئے ان سے نفرت کریں اور فرقۂ قادیانیہ سے بھی اتنی عرض ہے کہ وہ بھی شروع سے آخر تک اسے غور سے پڑھ جائیں۔ مگر پڑھتے وقت یہ خیال دل میں نہ رکھیں کہ ہم اپنے مخالف کی تحریر دیکھ رہے ہیں۔ ورنہ ہدایت نہ ہوگی۔ بلکہ منصفانہ نظر سے یہ سمجھ کر دیکھیں کہ ہم ایک خیرخواہ کی تحریر دیکھتے ہیں۔ انشاء اﷲ اگر طبیعت میں انصاف اور حق پسندی ہے تو ضرور ہدایت ہوگی۔ فقط!
’’وما علینا الا البلاغ۰ وآخرد عوانا ان الحمدﷲ رب العلمین والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ محمد وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین برحتمک یا ارحم الراحمین‘‘ احمد عبدالحلیم!