بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
قادیانیوں، مرزائیوں کو جو اپنے آپ کو احمدی کہلواتے ہیں۔ انہیں ۱۹۷۴ء میں قومی اسمبلی نے غیرمسلم اقلیت قرار دیا تھا۔ ایک سو قرآنی آیات اور دو سو دس احادیث کے علاوہ پوری امت کا ایمان اور عقیدہ ہے کہ جناب رسالت مآب حضرت محمدﷺ اﷲتعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپﷺ کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں ہوسکتا۔ جو شخص بھی دعویٰ نبوت کرے وہ اور اسے ماننے والے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ قادیانی جماعت کے بانی مرزاغلام احمد قادیانی نے مامور من اﷲ، مجدد، مہدی، مثیل مسیح، مسیح موعود، عیسیٰ ابن مریم، ظلی نبی، بروزی نبی، تشریعی نبی، غیر تشریعی نبی، امتی، نبی، لغوی وشرعی نبی کے علاوہ وحی الٰہی، الہامات، معجزات اور خداتعالیٰ سے ہم کلامی کے دعویٰ کئے۔ اﷲتعالیٰ، جناب رسالت مآبﷺ، اہل بیتؓ، صحابہ کرامؓ، ازواج مطہراتؓ، اولیائؒ، بزرگان دینؒ کی اہانت کا ارتکاب کیا۔ اپنے نہ ماننے والوں کو کافر اور جہنمی قرار دیا۔ مخالفین کو جنگل کے سؤر اور ان کی عورتوں کو کتیا جیسے نازیبا کلمات سے مخاطب کیا۔
حاجی فضل اﷲ تورپشتی نے رسالہ ’’معتمدفی المعتقد‘‘ میں عقیدہ ختم نبوت اور اس کے انکار کے حوالہ سے چند جملوں میں پورے مسئلہ کا نچوڑ بیان کیا ہے۔
’’عقیدہ ختم نبوت کا منکر وہی شخص ہوسکتا ہے جو آنحضرتﷺ کی نبوت ورسالت پر ایمان نہ رکھتا ہو۔ کیونکہ اگر یہ شخص آنحضرتﷺ کی رسالت کا معترف ہوتا تو جن چیزوں کی آپﷺ نے خبر دی ان میں آپﷺ کو سچا سمجھتا۔‘‘
سرکار دوعالمﷺ کے بعد کسی نئے نبی کا اقرار کرنا درحقیقت آپﷺ کی نبوت ورسالت پر عدم اعتماد ہے۔ گویا ختم نبوت سے روگردانی کا مطلب جناب رسالت مآبﷺ کی نبوت ورسالت اور آپﷺ کی تعلیمات وارشادات کا صریحاً انکار ہے۔ ایسا شخص مسلمان کہلوانے کا حقدار نہیں ہے اور نہ ہی امت محمدیہﷺ سے اس کا کوئی تعلق باقی رہ جاتا ہے۔
قادیانیوں اور مسلمانوں کے مابین تنازعہ کی اصل بنیاد مرزاغلام احمد قادیانی کی ذات ہے۔ اگر مرزاقادیانی کو ان کے دعاوی سمیت درمیان سے نکال دیا جائے تو قادیانیوں اور مسلمانوں میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے سرور کائناتﷺ کے بعد نہ صرف نبوت کا دعویٰ کیا۔ بلکہ اپنے آپ کو سچا نبی منوانے کے لئے نہ ماننے والوں کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے سمجھنے کے بعد اصل صورتحال واضح ہو جاتی ہے۔ حکم