وسمرۃ بن جندب والنواس بن السمعان وعمرو بن عوف وحذیفۃ بن الیمانؓ‘‘ یعنی اس باب اور اس موضوع میں ان حضرات صحابہ کرامؓ کی احادیث بھی موجود ہیں۔
حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ: ’’ومرادہ بروایتہ ھولاء مافیہ ذکر الدجال وقتل عیسیٰ بن مریم علیہ السلام لہ فاما احادیث الدجال فقط فکثیرۃ جدا (تفسیر ابن کثیر ج۱ ص۵۸۲)‘‘ {امام ترمذیؒ کی مراد یہ ہے کہ ان حضرات صحابہ کرامؓ کی روایات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دجال لعین کو قتل کرنے کا ذکر ہے۔ باقی وہ احادیث جن میں فقط دجال لعین کا ذکر ہے تو وہ بہت ہی زیادہ ہیں۔}
حافظ ابن کثیرؒ پہلے باحوالہ چند احادیث کا تذکرہ کرتے ہیں۔ پھر آگے فرماتے ہیں کہ: ’’فہذہ احادیث متواترۃ عن رسول اﷲﷺ من روایۃ ابی ہریرۃ وابن مسعود وعثمان بن ابی العاص وابی امامۃ والنواس بن السمعان وعبداﷲ بن عمرو بن العاص ومجمع بن جاریۃ وابی شریحۃ وحذیفۃ بن اسیدؓ وفیہا دلالۃ واضحۃ علی صفۃ نزولہ ومکانہ من انہ بالشام بل بدمشق عن المنارۃ الشرقیۃ وان ذلک یکون عند اقامۃ صلوۃ الصبح وقد بنیت فی ہذہ الاعصار فی سنۃ احدی واربعین وسبعمائۃ للجامع الاموی بیضاء من حجارۃ منحوتۃ عوضا عن المنارۃ التی ہدمت بسبب الحریق المنسوب الی ضنیع النصاری علیہم لعائن اﷲ تعالیٰ الی یوم القیمۃ (تفسیر ابن کثیر ج۱ ص۵۸۲،۵۸۳)‘‘ {حضرت ابوہریرہؓ، حضرت ابن مسعودؓ، حضرت عثمان بن ابی العاصؓ، حضرت ابوامامہؓ، حضرت نواس بن سمعانؓ، حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاصؓ، حضرت مجمع بن جاریہؓ، حضرت ابوشریحہؓ (یہ کتابت کی غلطی ہے۔ یہ لفظ ابوسریحہ ہے جو حضرت حذیفہ بن اسید کی کنیت ہے۔ ملاحظہ ہو مسلم ج۲ ص۳۹۳، عن ابی سریحۃ حذیفۃ بن اسید۔ صفدر) اور حضرت حذیفہ بن اسیدؓ کی آنحضرتﷺ سے یہ احادیث متواترہ ہیں اور ان میں واضح طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول اور مکان نزول کی واضح دلالت ہے کہ شام بلکہ دمشق میں مشرقی مینار پر صبح کی نماز کے وقت ہوگی اور یہ سفید مینار تراشے ہوئے پتھروں سے اس دور میں ۷۴۱ھ میں جامع اموی میں بنایا گیا ہے۔ اس سے قبل وہ مینار تھا جو آگ لگنے کی وجہ سے مسمار کر دیا گیا تھا اور یہ آگ نصاریٰ جن