بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۰ اما بعد!
اس پرفتن دور میں بے شمار فتنے کھڑے ہوگئے ہیں اور جوں جوں قیامت قریب آئے گی۔ مزید فتنے برپا ہوتے رہیںگے۔ ان میں ایک عظیم قلمی فتنہ جناب مودودی صاحب کا ہے۔ کیونکہ جناب مودودی صاحب نے اسلام کی بزرگ ترین ہستیوں مثلاً حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام، حضرات صحابہ کرامؓ اور ائمہ دینؒ کو (معاذ اﷲ) اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ حضرت آدم، حضرت موسیٰ، حضرت داؤد، حضرت یونس اور حضرت ابراہیم علیہم السلام کے بارے میں انہوں نے جو نازیبا کلمات اور نظریات پیش کئے ہیں وہ ان کی مایہ ناز تفسیر تفہیم القرآن میں موجود ہیں اور حضرات صحابہ کرامؓ کے بارے میں اپنے دیگر مضامین کے علاوہ خلافت وملوکیت میں جوکچھ کہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیعہ حضرات سلجھے ہوئے انداز میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہتے اور نہ کہہ سکتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ شیعہ کی پوری جماعت پاکستان بھر میں سوسال تک حضرات صحابہ کرامؓ پر سے وہ اعتماد نہ اٹھا سکتی جو تنہا مودودی صاحب نے خلافت اور ملوکیت میں اٹھا کر اپنے نفس پر ظلم کر ڈالا ہے تو بے جانہ ہوگا اور آنحضرتﷺ کے دیگر حضرات صحابہ کرامؓ کے علاوہ جلیل القدر صحابی کا تب وحی اور آپ کے سالے حضرت امیر معاویہؓ کے بارے میں ایک غیر صحیح اور تاریخی مفروضہ کی بناء پر یہاں تک لکھ ڈالا کہ: ’’مال غنیمت کی تقسیم کے معاملہ میں بھی حضرت معاویہؓ نے کتاب اﷲ وسنت رسول اﷲ کے صریح احکام کی خلاف ورزی کی۔‘‘ (خلافت وملوکیت ص۱۷۴)
نیز لکھا ہے کہ: ’’حضرت معاویہؓ نے اپنے گورنروں کو قانون سے بالاتر قرار دیا اور ان کی زیادتیوں پر شرعی احکام کے مطابق کارروائی کرنے سے صاف انکار کردیا۔‘‘
(خلافت وملوکیت ص۱۷۵)
اور یہ بھی لکھا ہے کہ: ’’حضرت معاویہؓ کے عہد میں سیاست کو دین پر بالارکھنے اور سیاسی اغراض کے لئے شریعت کی حدیں توڑ ڈالنے کی جو ابتداء ہوئی تھی ان کے اپنے نامزد کردہ جانشین یزید کے عہد میں وہ بدترین نتائج تک پہنچ گئی۔‘‘ (خلافت وملوکیت ص۱۷۹)
کون غیور مسلمان ہے جو ایک جلیل القدر صحابی کے بارے میں یہ باطل نظریات سننے پر آمادہ ہو سکتا ہے اور قرآن وحدیث کے قطعی دلائل کے مقابلہ میں تاریخ کے ظنیات پر