آپ ﷺ کے درمیان کے روات کی تعداد اتنی هی هو جتنی که کسی مصنف کے شاگرد اور آپ ﷺ کے درمیان هے، جیسے: اگر امام نسائی کسی حدیث کو اپنی کتاب میں روایت کریں ، جس میں ان کے اور آپ ﷺ کے درمیان گیاره واسطے هوں ، تو امام نسائی کے شاگرد اور آپ ﷺکے درمیان باره واسطے هوں گے؛ اور اگر اسی حدیث کو حافظ ابن حجر امام نسائی کے علاوه کسی دوسری سند سے روایت کریں جس میں حافظ ابن حجر اور آپ ﷺ کے درمیان باره واسطے هوں تو حافظ ابن حجر اس مخصوص سند سے قطع نظر کرتے هوئے تعدادِ روات میں امام نسائی کے شاگرد کے مساوی هو گئے، لهٰذا دوسرے طریق پر روایت کرنا ’’مصافحه‘‘ کهلائے گا۔
جیسے: أبوطاهر حدثنا أبوبكر بن خزیمة عن عتبة بن عبدالله، أخبرنا عبدالله بن المبارك أخبرنا سفیان عن جعفر بن محمد عن أبیه عن جابر بن عبداللهؓ قال: قال رسول اللهﷺ:’’من ترك مالا فلأهله، ومن ترك دینا أو ضیاعا فإليّ أو عليّ وأنا أولی المؤمنین‘‘.
(صحیح ابن خزیمة: ۱۴۳-۳، رقم: ۱۷۸۵)
أخبرنا عبدالله بن محمد الأزدي قال: حدثنا اسحاق بن ابراهیم قال أخبرنا عبدالرزاق قال أخبرنا معمر عن الزهري عن أبي سلمة عن
۱ اوپر كی سند میں ابن خزیمه كے شاگرد ابو طاهر اور آپﷺ كے درمیان سات واسطے هیں ، اسی طرح ابن حبان نے اس حدیث كو ابنِ خزیمه كے علاوه دوسری سند سے روایت كیا هے جس میں ان كے اور آپﷺ كے درمیان سات واسطے هیں ، لهٰذا امام ابن حبان اس مخصوص سند سے قطع نظر كرتے هوئے تعدادِ روات میں امام ابن خزیمه كے شاگرد كے مساوی هوگئے، لهٰذا دوسرے طریق پر روایت كرنا ’’مصافحه‘‘ كهلائے گا۔