قابلِ ذکر بات بلکہ جان سخن یہ ہے کہ وہ اس معاملہ میں صرف آسان سنتوں پر عمل کرنے (جن کا تعلق ایثار و قربانی اور مجاہدہ سے زیادہ نہیں ہے) ہی کے قائل نہ تھے، بلکہ اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی کرنے اور ہر قسم کے فوائد سے دست بردار ہونے پر تیار تھے، انھیں جس طرح وضو کے سنن و مستحبات کا خیال تھا، اسی طرح اس راہ میں فقرو فاقہ برداشت کرنے، راہِ حق میں مصیبتیں اٹھانے اور تکلیفیں جھیلنے، فائدہ میں اپنے اہل و عیال کو سب سے پیچھے رکھنے اور نقصان میں سب کے آگے رکھنے اور بایں مرتبہ و مشیخت خود اپنے ہاتھ سے اپنا کام کرنے، لکڑیاں کاٹنے، پانی بھرنے، یتیموں اور بیواؤں کا سامان خریدنے اور خود لے کر ان کے گھروں تک پہنچانے کا بھی خیال تھا، اور یہ دونوں سنتیں وہ یکساں ذوق وشوق اور اہتمام اور پابندی کے ساتھ انجام دیتے تھے۔
خاندان کے رسم و رواج اور بعض وقت ہندوستان کے دینی ماحول کے خلاف بھی (جس میں بہت سی چیزیں خلافِ سنت داخل تھیں ، اور مدرسہ و خانقاہ کسی جگہ ان کو معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا) سید شاہ علم اللہؒ نے عزیمت اور پیروئ سنت کی جو مثال قائم کی ہے وہ خواص و عوام دونوں کے لیے روشنی کا مینار ہے۔
اس کے ساتھ ان کا زہد و تقوی، کمال احتیاط، ان کا تعلق مع اللہ اور روحانی و باطنی کمالات، ان کی تاثیر و قوتِ تسخیر، ان کی نورانیت و برکت، ان کا فیضِ صحبت و فیضانِ معرفت، اہل دل مشائخِ وقت اور نامور علماء و اہلِ درس میں ان کی محبوبیت و عظمت، ان ساری باتوں نے ان کو اپنے معاصرین میں ایک ممتاز اور مخصوص جگہ عطا کی ہے، لیکن در حقیقت یہ سب اسی جمالِ نبوی کا پرتو اور اسی سنتِ نبوی کا عکس ہے جو ان کی زندگی کا سب سے بڑا جوہر اور سب سے بڑا امتیاز ہے اور جس نے ان کو قبولیت و محبوبیت کی یہ خلعت فاخرہ عطا کی ہے۔